22 December, 2024


دارالاِفتاء


السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماے دین و فقہاے شرع متین مسئلہ ھذا میں کہ نمازی کے پیر کی تین تین انگلیوں کے پیٹ کا زمین سے لگنا واجب ہے اگر کوئی نمازی کئ سال تک انجانے میں انگلیوں کو بغیر زمین پر لگاے نماز پڑھتا رہا تو اس کے لیے شرعاً کیا حکم ہے آیا وہ تمام نمازیں واجب الاعادہ ہوگی؟ نہیں اور اگر فدیہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے یا نہیں ؟اگرچہ تندرست ہو، مدلل و مبرھن جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں المستفتی: تنویر عالم مصباحی سکونت: امبیڈکر نگر،یوپی

فتاویٰ #2237

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الجواب: سجدہ میں دونوں پاوں کی دس انگلیوں میں سے کم از کم ایک انگلی کا پیٹ زمین سے لگنا فرض ہے اور ہرپاوں کی اکثر (تین)انگلیوں کا پیٹ زمین سےلگنا واجب ہے۔ اگر کسی کے دونوں پاوں سجدہ کی حالت میں زمین سے اٹھے رہے،یا صرف انگلیوں کے سرے زمین سے لگے اور کسی انگلی کا پیٹ زمین پر نہیں لگا تو اس کی نماز ہوئی ہی نہیں ، فرض ذمہ پر باقی رہا۔اور اگر ایک،یا دو انگلیوں کے پیٹ زمین سے لگے اور اکثر کے پیٹ نہیں لگے تو اس صورت میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوئی ؛ اس لیے اس شخص پر لازم ہے کہ انجانے میں جتنی نمازیں انگلیوں کو زمین پر لگائے بغیر پڑھی ہیں، یا صرف انگلیوں کے سرے زمین سے لگائے تھے، یا ایک دو انگلیوں کے پیٹ زمین سے لگائے تھے، ان سب نمازوں کا اعادہ کرے ، نہ جاننا اس کے لیے عذر نہیں ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں : ” سجدہ میں فرض ہے کہ کم از کم پاوں کی ایک انگلی کا پیٹ زمین پر لگا ہو،اور ہرپاوں کی اکثر انگلیوں کا پیٹ زمین پر جما ہونا واجب ہے ۔۔ ۔ ۔ پاوں کو دیکھیے،انگلیوں کے سرے زمین پر ہوتے ہیں ، کسی انگلی کا پیٹ بچھا نہیں ہوتا ،سجدہ باطل ، نماز باطل“۔ [فتاویٰ رضویہ ، ج:۱،ص:۵۵۶، کتاب الطہارۃ ، باب المیاہ ، رضا اکیڈمی ، ممبئی] صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ”پیشانی کا زمین پر جمنا سجدہ کی حقیقت ہے اور پاوں کی ایک انگلی کا پیٹ لگنا شرط، تو اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاوں زمین سے اٹھے رہے، نماز نہ ہوئی، بلکہ اگر صرف انگلی کی نوک زمین سے لگی، جب بھی نہ ہوئی۔ اس مسئلہ سے بہت لوگ غافل ہیں“۔ [بہارشریعت ، حصہ سوم ،ص:۵۱۳،نماز پڑھنے کا طریقہ ، فرائض نماز ، مکتبۃ المدینہ ، دہلی] فتاویٰ امجدیہ میں ہے : ” جو نمازیں اس طرح پڑھیں کہ واجب ترک ہوا ، ان کااعادہ کرے، در مختار میں ہے : کل صلاۃ أدّیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا۔اور فرض ترک کیا تو نماز ہوئی ہی نہیں ، فرض ذمہ پر باقی ہے اور نہ جاننا عذر نہیں“۔ [فتاویٰ امجدیہ ، ج:۱،ص:۲۷۱،باب قضاء الفوائت، قادری کتاب گھر ، بریلی شریف] ● آدمی بیمار ہو یا صحت مند،زندگی میں اپنی نمازوں کا فدیہ نہیں دے سکتا،یعنی فدیہ دینے سے بھی وہ نمازیں ذمہ سے ساقط نہیں ہوں گی۔ہاں! اگر کچھ نمازیں ذمہ میں باقی رہ گئیں اور انتقال ہوگیا تو اس کے ورثہ ان نمازوں کا فدیہ ادا کرسکتے ہیں اور امید ہے کہ اللہ جل شانہٗ اسے قبول فرمالےگا۔ درمختارمیں ہے : ”ولو فدی عن صلاتہ في مرضہ لا يصح بخلاف الصوم“ اس کے تحت ردالمحتار میں ہے : ”قولہ :(ولوفدی عن صلاتہ في مرضہ لايصح) في التتارخانيۃ عن التتمۃ:سئل الحسن بن علي عن الفديۃ عن الصلاۃ في مرض الموت ہل تجوز؟ فقال:لا۔وسئل أبو يوسف عن الشيخ الفاني ہل تجب عليہ الفديۃ عن الصلوات کما تجب علیہ عن الصوم و ہو حيّ؟ فقال:لا۔وفي القنیۃ:ولافدیۃ في الصلاۃ حالۃ الحياۃ بخلاف الصوم“۔ [ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج:۲،ص:۷۴،کتاب الصلاۃ ،باب قضاء الفوائت،دارالفکر] صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ” نماز خالص عبادتِ بدنی ہے، اس میں نیابت جاری نہیں ہو سکتی،یعنی ایک کی طرف سے دوسرا نہیں پڑھ سکتا، نہ یہ ہوسکتا ہے کہ زندگی میں نماز کے بدلے کچھ مال بطورِ فدیہ ادا کر دے، البتہ اگر کسی پر کچھ نمازیں رہ گئی ہیں اور انتقال کر گیا اور وصیت کر گیا کہ اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے تو ادا کیا جائےاور امید ہے کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ قبول ہو، اور بے وصیت بھی وارث اس کی طرف سے دے کہ امید قبول و عفو ہے“۔[بہارشریعت ، حصہ سوم ، ص: ۴۴۳، نماز کا بیان ، مکتبۃ المدینہ ، دہلی]۔واللہ تعالیٰ أعلم ۔ کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــہ ساجد علی المصباحی خادم الإفتاء والتدریس بالجامعۃ الأشرفیۃ، مبارک فور،أعظم جرہ ۷؍شعبان المعظم ۱۴۴۴ھ/۲۸؍فروری ۲۰۲۳ء، سہ شنبہ

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved