----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- اکابر اہل سنت حضرت مفتی اعظم ہند، حضرت محدث اعظم ہند، حضور حافظ ملت، حضور مجاہد ملت، حضرت شیربیشہ اہل سنت، غازی ملت حضرت مولانا محبوب علی خاں صاحب، مفتی اعظم کان پور حضرت مولانا رفاقت حسین صاحب وغیرہ کا فتوی یہی ہے کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر امام لاؤڈ اسپیکر میں بالقصد آواز ڈالے گا تو اس پر تمام علماے اہل سنت کا اتفاق ہے کہ امام کی نماز فاسد ہو جائے گی ، اور جب اس کی نماز فاسد ہو گئی تو مقتدیوں میں سے کسی کی نہ ہوگی۔اور اگر امام مائک میں بالقصد آواز نہ ڈالے بلکہ صورت یہ ہو کہ مائک لگا ہوا ہے اور اس سے قطع نظر کر کے نماز پڑھا رہا ہے خود بخود اس میں آواز پہنچ رہی ہے تو امام کی نماز تو فاسد نہ ہوگی ، بلا کراہت ہو جائے گی مگر مقتدیوں میں سے جو لوگ لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر رکوع، سجدہ کریں گے ان کی نماز فاسد ہو جائے گی، کیوں کہ اس میں تلقن میں الخارج ہے اور تلقن من الخارج سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ عوام علما کے ارشادات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اپنا شوق پورا کرنے کے لیے نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے پر مصر ہیں۔ اور یہ اصرار اتنا بڑھا ہوا ہے کہ اگر سنی امام لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھانے کے لیے آمادہ نہ ہو تو وہابی امام رکھ لیتے ہیں جیسا کہ حمیدیہ مسجد میں ہوا۔ اس لیے عوام کو سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے شریعت کے حکم کے آگے سر جھکا دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں خاص نکتہ یہ ہے کہ جو چند نوجوان علما لاؤڈ اسپیکر پر نماز کو جائز کہتے ہیں وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنا فرض یا واجب ہے یا مستحب ہے ۔ صرف یہ کہتے ہیں کہ جائز ہے۔ نماز ہو جائے گی ۔ اس کے برخلاف اکابر علماے اہل سنت جو ان نوجوان علما کے بھی اکابرو مستند ہیں۔ وہ یہ فرماتے ہیں کہ اس سے نماز فاسد ہوگی۔ تو چند نوجوان علما کے فتوی کے مطابق اگر نماز میں لاؤڈ اسپیکر نہ استعمال کریں تو کوئی گناہ نہیں اور اکابر کے فتوی کے مطابق گناہ ہے۔ تو احتیاط کا یہی تقاضا ہوا کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر نہ استعمال کیا جائے۔ انتہائی سنجیدہ ومتین بات بھی عوام کو سمجھ میں نہ آئے تو اس کا ہمارے پاس کیا علاج۔ اب آپ اپنے سوالات کے جوابات لیجیے۔ کسی مسجد ہی میں سہی لاؤڈ اسپیکر لگا کر اتنی آواز اونچی کرنا کہ دوسری مسجد کے مصلیوں کی نماز میں خلل پڑے، یا گھروں کے اندر ،یا کہیں تلاوت یا ذکر میں مشغول ہوں، یا سونے والوں کی نیند میں خلل پڑے جائز نہیں۔ مسجد میں جہری نمازوں میں اتنی ہی آواز سے بلند آواز سے قراءت کی اجازت ہے کہ مسجد کے اندر محدود رہے ، ارشاد ہے: وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا۰۰۱۱۰ ۔ نماز پڑھتے وقت اپنی آواز بہت اونچی نہ کرو اور نہ بالکل آہستہ۔ ان دونوں کے بیچ میں راستہ چاہو۔ علاوہ ازیں فقہا نے لکھا ہے کہ اگر بلند آواز سے ذکر کرنے کی وجہ سے نمازیوں کو خلل ہو تو جائز نہیں ۔یہ حکم عام ہے خواہ اپنی مسجد کے مصلیوں کی نماز میں خلل پڑے خواہ دوسری مسجد کے مصلیوں کی نماز میں خلل پڑے، خواہ آس پاس کےگھروں میں نماز پڑھنے والوں کی نماز میں خلل پڑے۔ اور یہی حکم اوراد وظائف میں مشغول رہنے والوں کے معمول میں خلل پڑے تو ہے۔ امام قاضی خاں نے فرمایا تھا کہ بلند آواز سے ذکر حرام ہے۔ اور بزازیہ میں فرمایا کہ جائز ہے۔ خیریہ میں دونوں میں یہ تطبیق دی کہ ممنوع وہ جہر ہے جو مضر ہو مثلاً اس میں ریا کا اندیشہ ہو یا نمازیوں اور سونے والوں کو ایذا پہنچتی ہو۔ شامی میں ہے: وقد حرر المسألة في الخيرية وحمل ما في فتاوى القاضي على الجهر المضر۔ وقال: إن هناك أحاديث اقتضت طلب الجهر وأحاديث طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال فالإسرار أفضل حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، والجهر أفضل حيث خلا مما ذكر۔ [حاشیہ: وفي الکتاب هكذا، ـــــــــ وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث ما اقتضى طلب الجهر به نحو ’’وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم‘‘ رواه الشيخان۔ وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال، كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة۔ ولا يعارض ذلك حديث ’’خير الذكر الخفي؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام فإن خلا مما ذكر۔ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملا ولتعدي فائدته إلى السامعين ويوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفكر ويصرف سمعه إليه ويطرد النوم، ويزيد النشاط إلي آخرہـ ملخصا۔ (رد المحتار،ج۲،ص:۴۳۴، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکره فیھا، مطلب فی رفع الصوت بالذکر،دار الکتب العلمیه، بیروت)] اسی میں ہے: وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارىء الخ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ بلند آواز سے ذکر جائز ہے لیکن اگر بلند آواز سے ذکر کرنے میں ریا کا اندیشہ ہو، یا سونے والوں کی نیند، یا نمازیوں کی نماز، یا تلاوت کرنے والوں کی تلاوت میں خلل کا اندیشہ ہو تو جائز نہیں۔ علاوہ ازیں نمازی کے قریب یا آس پاس ایسی حرکت کرنی جس سے نمازی کی نماز میں خلل پڑے حتی کہ نماز کے فاسد ہونے کا اندیشہ ہوتو حرام ہے۔ اس لیے مسجد میں اتنی تیز آواز کا لاؤڈ اسپیکر لگانا کہ اس کی آواز دوسری مسجد کے نمازیوں تک پہنچے یا پڑوس کے گھروں میں پہنچے جس سے ان کی نمازوں میں، یا تلاوت یا ذکر واذکار ، یا سونے میں خلل پڑے کسی طرح جائز نہیں۔ جو چند نوجوان علما نماز میں لاؤڈ اسپیکر کی اجازت دیتے ہیں وہ بھی اسے جائز نہیں کہہ سکتے۔ آپ ان سے استفتا کر لیں۔ جو لوگ اپنے امام کے علاوہ دوسری مسجد کے امام کی تکبیرات پر رکوع ، سجدہ کریں گے ان کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ خصوصا لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر؛ کیوں کہ اس میں ایک توتلقن من الخارج ہے، دوسرے یہ کہ جس امام کی اقتدا میں تحریمہ باندھا ہے اس کے علاوہ دوسرے کی اقتدا ہے، وہ بھی جب کہ مسجدیں مختلف ہیں۔ اس جماعت کا فساد سجدۂ سہو سے بھی دور نہ ہوگا۔ ان لوگوں پر واجب ہے کہ اپنی نماز الگ پڑھیں۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org