ماہ نامہ ’’رضاے مصطفیٰ‘‘ گوجرنوالہ، شمارہ شعبان المعظم ۱۴۱۵ھ کے ص: ۱۲ پر محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد کی کتاب ’’انوار شریعت‘‘ حصہ ۹ تا ۱۶، ص: ۵۰۸، ۵۰۹ کے حوالے سے لاؤڈ اسپیکر سے نماز وغیرہ کے متعلق علماے اہل سنت کی پانچ آرا، اور نظریات کا تذکرہ ہے۔ (۱) نماز میں لاؤڈ اسپیکر لگانا درست نہیں۔ (۲) نماز میں لاؤڈ اسپیکر لگانا مفسد نماز ہے ۔ (۳) نماز میں لاؤڈ اسپیکر ہرگز نہ لگایا جائے۔ (۴) نماز میں لاؤڈ اسپیکر لگانا بدعت سیئہ ہے۔ (۵) نماز تو نماز اذان وخطبہ میں بھی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ کیا جائے۔ ان اقوال کو بیان کرنے کے بعد محدث اعظم پاکستان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے یہ تحریر فرمایا ہے : ’’ان وجوہ کی بنا پر احتیاط اسی میں ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کا نماز میں ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔‘‘ ماہ نامہ ’’رضاے مصطفیٰ‘‘ کے اصل الفاظ یہ ہیں: -------محدث اعظم پاکستان کے تین فتوے------- سوال (۱) : نماز پڑھتے وقت امام کو لاؤڈ اسپیکر کا استعمال شرعاً درست ہے یا نہیں اور اس پر نماز پڑھنا شرعا کیسا ہے؟---- الجواب: (۱) نماز پڑھاتے وقت امام کو لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ہر گز نہ چاہیے۔ وہ ناپسند ہے ؛ کیوں کہ قراءت میں ایسا تصنع وتکلف اور زیادہ بلند آواز جو حضور قلب خشیت اور تذلل نماز کے منافی ہو منع ہے۔ ائمہ مساجد کو اس سے احتراز چاہیے۔ اور متولی و اراکین مسجد کمیٹی اور مقتدیوں کو چاہیے کہ جس جگہ امامت کے لیے یہ آلہ استعمال ہوتا ہو اس کو بند کرائیں۔ لاؤڈ اسپیکر کے مسئلہ کے متعلق غور کیا گیا اس کے متعلق زمانے کے ماہر لوگ بھی دو قسم کے ہیں: • بعض کہتے ہیں لاؤڈ اسپیکر کی آواز متکلم کی آواز ہے یعنی لاؤڈ اسپیکر متکلم کی آواز کو دور تک پہنچاتا ہے۔ • بعض کہتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر سے متکلم کی آواز ٹکراتی ہے جس سے لاؤڈ اسپیکر میں جدا آواز پیدا ہوتی ہے ۔ اس صورت میں لاؤڈ اسپیکر کی آواز امام کی آواز نہیں۔ لہذا اس قول کی بنا پر لاؤڈ اسپیکر کی آواز سے جو تکبیرات انتقالات کی جائیں گی اس سے نماز فاسد ہو جائے گی۔ فساد وعدم فساد میں معاملہ دائر ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ نماز کے لیے ہرگز نہ لگایا جائے۔ مسلمانوں کی نمازیں خطرے میں نہ ڈالی جائیں۔ ہمارے اکابر علما نے نماز میں اس کے لگانے کو پسند نہیں کیا بلکہ : • بعض علماے نے صراحۃً فرمایا کہ اس کا نماز میں لگانا درست نہیں • بعض نے فرمایا مفسد نماز ہے۔ • بعض نے فرمایا ہرگز نہ لگایا جائے۔ • بعض نے فرمایا اس کا نماز میں لگانا بدعت سیئہ ہے۔ • اور بعض نے فرمایا کہ نماز تو نماز اذان وخطبہ میں بھی اس کا استعمال نہ کیا جائے۔ ان وجوہ کی بنا پر احتیاط اسی میں ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کا نماز میں ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔ واللہ تعالی ورسولہ الاعلی اعلم واحکم بالصواب-------- سوال (۲) : کیا گنبد یا لاؤڈ اسپیکر سے سنی ہوئی آواز بعینہ متکلم کی آواز ہے؟------ الجواب: (۲) گنبد سے سنی ہوئی آواز بعینہ متکلم کی آواز نہیں ہے کیوں کہ اگر گنبد سے سنی ہوئی آواز بعینہ متکلم کی آواز ہوتی تو جو آدمی گنبد سے آیت سجدہ سنتا تو اس پر سجدہ تلاوت لازم ہوتا حالاں کہ لازم نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ گنبد سے سنی ہوئی آواز بعینہ متکلم کی آواز نہیں ہے۔ بعض علما لاؤڈ اسپیکر کے متعلق بھی ایسا ہی کہتے ہیں ... لہذا نہ گنبد کی آواز پر سجدہ تلاوت لازم نہ اقتدا کا تحقق۔ واللہ تعالی اعلم (کتاب انوار شریعت، حصہ:۹ تا ۱۶، ص: ۵۰۸-۵۰۹)-------- تیسرا فتویٰ: نماز پڑھاتے وقت امام کو لاؤڈ اسپیکر کا استعمال شدید ممنوع ، ائمہ کو اس سے احتراز لازم۔ بعض علماکے نزدیک جو مقتدی لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر تکبیر تحریمہ یا تکبیرات انتقال کہے گا اس کی نماز ہی نہیں ہوگی۔ واللہ تعالی اعلم------------ انھیں وجوہات کی وجہ سے لاؤڈ اسپیکر کے مسائل کو ’’مفسدات صلاۃ ‘‘ کے باب کے تحت رکھا گیا ہے، اگرچہ علما کے ایک طبقہ کے نزدیک یہ مفسد نماز نہیں ، البتہ بلا حاجت وہ بھی اس کے استعمال کو پسند نہیں کرتے۔ اور بعض علما کے نزدیک فساد نماز میں مائک کی آواز کا دخل نہیں بلکہ عمل کثیر کی وجہ سے نماز فاسد ہوتی ہے، جب کہ ایک طبقے کے نزدیک مائک کا استعمال ہی مفسد نماز ہے کیوں کہ اس سے آنے والی آواز امام کی اصل آواز نہیں ہوتی۔ محمود علی مشاہدی------(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))-------
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org