8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص عالم موضع ہے پیش امام بھی ہے اس کے پیچھے پانچوں وقت کی نماز کے علاوہ عید وبقرعید کی نماز بھی پڑھی جاتی ہے۔ اس کے وہاں اس کی بھتیجی کی شادی تھی اس سلسلے میں طوائف کو بلوایا گیا اور دروازے پر طوائف نے ہر اداکاری پیش کی۔ اور ہر ہندوانہ رسم کی ادایگی بڑی دھوم دھام سے ادا کی گئی۔ اور ایک بے گناہ مسلمان عورت کے ساتھ اس عالم نے ظلم کیا۔ اور ایسا کارنامہ دکھایا کہ اس کو جان سے مارنے کی کوشش کی۔ پہلی لاٹھی خود اس نے چلایا جو اس کے کندھے پر پڑی اس سے وہ بےچاری گر پڑی اور للکار کر گڑانسے سے اس کے سر پر شدید چوٹ دی گئی۔ اس میں علماے کرام کی کیا راے ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کا ضعیف باپ بھی پسٹل اور گڑانسی کے جرم میں قید کیا گیا ، کچھ دن جیل میں رہا ۔ کیا اس ضعیف باپ کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟ اور یہ عالم نسلاً حرامی بھی ہے۔

فتاویٰ #1902

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- بھتیجی کی شادی میں طوائف کے بلانے پر اگر یہ عالم راضی نہیں تھا تو اس پر اس سے کچھ الزام نہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ۚ ۔ ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں لادا جا سکتا۔ اور اگر اس بے حیائی سے یہ عالم راضی تھا تو ضرور یہ فاسق معلن ہوا اسے امام بنانا ناجائز وگناہ ہے۔ یوں ہی کسی بے گناہ کو مارنا حرام قطعی ہے اس کی وجہ سے بھی یہ امام فاسق معلن ہوا ۔ فاسق معلن کو امام بنانا گناہ، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔ قید کیا جانا جیل جانا ثبوت جرم کے لیے کافی نہیں ، بارہا بے قصور بھی جیل میں بند ہوجاتے ہیں۔ اگر اس کا بوڑھا باپ کسی علانیہ گناہ کا مرتکب ہے اور توبہ نہیں کی ہے تو اس کو بھی امام بنانا جائز نہیں۔ اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved