----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱)یہ امام فاسق معلن ہوگیا، اسے امامت سے معزول کرنا واجب، اور جب سے اس نے ہوٹل والے سے یہ بات کہی ہے، اس وقت سے لےکر جتنی نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئی ہیں، سب کا دہرانا واجب۔ قبرستان کی ایک بالشت بھی زمین بیچنا یا کسی کو کِراے پر دینا ناجائز و حرام ہے۔ اگرچہ وہاں مردے نہ ہوں۔ کیوں کہ یہ وقف کی تغییر ہے۔ اور یہ جائز نہیں۔ کمیٹی والوں نے اگر اجازت دے دی ہے تو وہ خائن ہوئے، ان سب کو معزول کرنا واجب۔ در مختار میں ہے: ( وَيُنْزَعُ ) وُجُوبًا ( لَوْ ) الْوَاقِفُ فَغَيْرُہُ بِالْأَوْلَی ( غَيْرَ مَأْمُونٍ ) أَوْ عَاجِزًا أَوْ ظَھَرَ بِہِ فِسْقٌ ۔ بوقت ضرورت فتویٰ چھپانا حرام، یہ کتمان حق ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲)اللہ ائمۂ مساجد کو ہدایت دے۔ صرف کہیں امام ہوجانے سے کوئی عالم نہیں ہوجاتا۔ آج کل تو حال یہ ہے کہ سو۱۰۰عالم کہلانے والوں میں شائد ہی ایک عالم ہوتا ہے۔ آپ نے اس امام کو عالم کہا، اس سے آپ توبہ کریں۔ سورۂ توبہ کے شروع میں چوں کہ بسم اللہ شریف نازل نہیں ہوئی، اس لیے مسلسل تلاوت کے وقت بسم اللہ شریف نہیں پڑھی جاتی۔ اگر کوئی شخص سورۂ توبہ کی ابتدا ہی سے تلاوت شروع کرے تو اس وقت بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، چہ جاے کہ سورہ توبہ کی وسط یا اخیر کی کوئی آیت پڑھے۔ پھر اس نے تلاوت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کو مطلقاً سنت بتایا، یہ بھی غلط ہے۔ اگر شروع سورت سے تلاوت کی ابتدا کرے تو سنت ہے، اور اگر درمیان سورت سے تلاوت کی ابتدا کرے تو مستحب۔ آپ نے مؤذن سے ایک مستحب کام کرایا اس پر امام ناراض ہوا، یہ اس کی تیسری جہالت ہے، اور آپ کی غلطی ہے کہ آپ نے اس سے معافی مانگی۔ جو کام مستحب ہیں، ان کو خود کرنا اور دوسروں سے کرانا باعث اجر و ثواب ہے۔ اس پر ناراض ہونا جہالت ہے۔ امام کی ایک جہالت یہ بھی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ آپ نے ایک مسنون طریقے پر اتنا زور کیوں دیا۔ جب کہ حدیث میں فرمایا گیا کہ: مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي لَہُ أَجْرُ مائۃ شَھِيدٍ ۔ جو شخص میری کوئی مردہ سنت زندہ کرےگا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملےگا۔ یہ امام بتائے کہ بقول اس کے مسنون طریقہ بند کرانے پر اسے ضد کیوں ہے۔ کیا اس کے اعتقاد میں سنت مٹانا ثواب کا کام ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر امام اپنے ایمان کی خبر لے۔ آپ کو امام سے ہرگز ہرگز معافی نہیں مانگنی چاہیے تھی۔ یہ عوام میں غلط مشہور ہے کہ اگر امام ناراض ہوگا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوگی۔ امام راضی ہو یا ناراض، مقتدیوں کی نماز اس کے پیچھے بہر حال ہوجائےگی۔ بلکہ اگر امام نے کوئی شرعی غلطی کی اس پر مقتدی امام سے ناراض ہیں تو امام کی نماز قبول نہ ہوگی۔ حدیث میں ہے: تین شخصوں کی نماز ان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو لوگوں کا امام ہو۔ اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org