----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (1) پہلے امام خود سنت پر عمل کرے، اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کو عامِل بِالسُّنَّہ بنائے، پھر پیار و محبت اور خوش اخلاقی کے ساتھ لوگوں کو سمجھائے، سنت پر پابندی کے فوائد بیان کرے، ترک سنت کے جو قبائح ہیں ان کو بیان کرے۔ اور ہر کام کے متعلق جو جو سنتیں ہیں بار بار لوگوں کو بتائے۔ جو لوگ سنتوں کے پابند ہوجائیں ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ (2) سلام کے بعد داہنے مڑنا اس بنا پر نہیں کہ ادھر بیت المقدس ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ سنت ہے۔ حضور اقدس ﷺ سلام کے بعد دائیں یا بائیں مڑ جاتے تھے، یا مقتدیوں کی طرف رخ کر لیا کرتے تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (3) مسجد کے منتظمین اگر بخوشی دیں تو امام کو لینے میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطےکہ مال موقوف سے نہ دیا جائے۔ یا یہ کہ پہلے سے اس کے دینے کا رواج چلا آرہا ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (4) اگر امام اتنا بخیل وکنجوس ہے کہ زکات، فطرہ، قربانی واجب ہوتے ہوئے نہیں ادا کرتا ہے تو اسے امام بنانا جائز نہیں۔ اور اگر زکات اور دیگر صدقات واجبہ ادا کرتا ہے، تو اس کو امام بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم (5) یہ بے نصیب محروم ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (6) اس میں کوئی حرج نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے خصوصاً صبح کے وقت کہ اگر قبلہ رخ بیٹھ کر تلاوت کریں گے تو سجھائی کم دیتا ہے، روشنی کم رہتی ہے۔ اور پورب رخ کرکے بیٹھنے میں پوری روشنی رہتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (7) امام پر کوئی گناہ نہیں۔ اس کے پڑھنے میں ثواب ہے، اور نہ پڑھنے میں ادنیٰ سی بھی کراہت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (8) جو لوگ داڑھی منڈاتے ہیں یا کاٹ کر یا کٹوا کر ایک مشت سے کم کرتے ہیں وہ فاسق معلن ہیں، انھیں اذان و اقامت کہنے دینا جائز نہیں۔ بلکہ اذان کے بارے میں علما نے لکھا ہے کہ دوبارہ کہی جائے، امام نے صحیح حکم شرعی بتایا۔ فتنہ فساد وہ لوگ مچاتے ہیں جو فسق و فجور کرنے کے باوجود حکم شرعی بتانے والے کو برا بتاتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (9) تمام ملازمتوں میں یہ عمل در آمد ہے کہ ملازم کو سال میں ایک ماہ، دو ماہ، ڈیڑھ ماہ با تنخواہ چھٹی ملےگی۔ اس کے مطابق اگر امام تنخواہ لیتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ شرعاً کوئی میعاد مقرر نہیں کہ اتنے دنوں میں ہر جوان انسان اپنے بال بچوں کے پاس جائے۔ کتنے علماے کرام، اولیاے عظام ایسے گزرے ہیں جنھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی؛ اس لیے محض اس بنا پر کہ امام چھ مہینے کے بعد اپنے گھر نہیں جاتا، اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز کہنا بلکہ یہ جبروتی حکم لگانا کہ اس کے پیچھے نماز ہی نہیں ہوگی، شریعت پر افترا ہے۔ ایسا حکم لگانے والے کو توبہ کرنا ضروری ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (10) یہ امام کی زیادتی ہے، جب قدیم سے عمل در آمد ہے کہ مسجد کے مال سے افطار کرائی جاتی ہے تو اسے ناجائز کہنا غلط ہے۔ پھر اگر وہ ناجائز ہوگی تو سب کے لیے۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ امام کے لیے جائز ہو اور غیروں کے لیے ناجائز۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (11) اولاً تو یہ مسلمان کے ساتھ زیادتی ہے، بد گمانی ہے کہ سائل نے یہ لکھ دیا کہ لوگ نمازِ جنازہ اچھی طرح پڑھنا نہیں جانتے۔ جب مقتدی کو یہ معلوم ہے کہ امام نمازِ جنازہ ہی پڑھانے کھڑا ہوا ہے تو اس صورت میں ان الفاظ میں اس کی نیت صحیح ہے کہ ’’جو نیت امام کی وہی نیت میری‘‘، لیکن اس میں ایک نقص ہے، مقتدی کو امام کی اقتدا کی نیت کرنی لازم ہے۔ جملۂ مذکورہ سے اگرچہ ضمناً یہ نیت ہوجاتی ہے، لیکن عوام کے لیے یہ تصریح ایک حد تک ضروری ہے؛ اس لیے عوام یہ بھی اضافہ کریں، اس امام کی اقتدا میں۔ اتنے کج راسطے سے چلنے کی کیا حاجت، مقتدی یہ نیت کرلیں، نیت کی میں نے اس میت کے نماز جنازہ پڑھنے کی، اس امام کی اقتدا میں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (12) اگر مؤذن فاسق نہیں اور امام نے اسے فاسق کہا تو امام خود فاسق ہوگیا، اور اگر فاسق ہے تو پھر اس کی اذان و اقامت مکروہ ہے۔ امام پر واجب تھا کہ اس مؤذن کو ہٹانے کی پوری کوشش کرتا، اور اگر کوشش کی لیکن خدا ناترس منتظمین نے نہیں سنا جیسا کہ اکثر سنا گیا ہے، تو امام پر کوئی گناہ نہیں۔ نماز بہرحال درست ہوجاتی ہے۔ اگرچہ فاسق اذان و اقامت کہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (13) مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ و ممنوع ہے۔ تنویر الابصار و در مختار میں ہے: (وَكُرِہَتْ تَحْرِيمًا فِي مَسْجِدِ جَمَاعَۃٍ ھُوَ) أَيْ الْمَيِّتُ (فِيہِ) وَحْدَہُ، أَوْ مَعَ الْقَوْمِ۔ (وَاخْتُلِفَ فِي الْخَارِجَۃِ) عَنْ الْمَسْجِدِ وَحْدَہُ، أَوْ مَعَ بَعْضِ الْقَوْمِ (وَ الْمُخْتَارُ الْكَرَاھَۃُ) مُطْلَقًا۔۔۔ وَھُوَ الْمُوَافِقُ لِإِطْلَاقِ حَدِيثِ أَبِي دَاوُد : ( مَنْ صَلَّی عَلَی مَيِّتٍ فِي الْمَسْجِدِ فَلَا صَلَاۃَ لَہُ )۔ اس کے تحت شامی میں ہے: فَرَجَّحَ الْقَوْلَ الْأَوَّلَ لِإِطْلَاقِ الْمَنْعِ فِي قَوْلِ مُحَمَّدٍ فِي مُوَطَّئِہِ : لَا يُصَلَّی عَلَی جِنَازَۃٍ فِي مَسْجِدٍ . وَقَالَ الْإِمَامُ الطَّحَاوِيُّ : النَّھْيُ عَنْھَا وَكَرَاھِيَتُھَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃَ وَمُحَمَّدٍ، وَھُوَ قَوْلُ أَبِي يُوسُفَ أَيْضًا وَأَطَالَ، وَحَقَّقَ أَنَّ الْجَوَازَ كَانَ ثُمَّ نُسِخَ وَتَبِعَہُ فِي الْبَحْرِ، وَانْتَصَرَ لَہُ أَيْضًا سَيِّدِي عَبْدُ الْغَنِيِّ فِي رِسَالَۃٍ سَمَّاھَا [نُزْھَۃَ الْوَاجِدِ فِي حُكْمِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ فِي الْمَسَاجِدِ]. امام صاحب نے ٹھیک کہا، اس پر مسلمانوں کو عمل کرنا واجب ہے۔ حکم شرعی کے مقابلے میں پرانے رسم و رواج پر اڑے رہنا جاہلیت ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۱۴) دونوں فاسق ہیں، داڑھی منڈوانے والا بھی اور جھوٹ بولنے والا بھی۔ داڑھی منڈوانے والا اس سے بڑا فاسق ہے۔ اس لیے کہ وہ داڑھی منڈواکر اپنے گناہ کا اعلان کر رہا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org