8 September, 2024


دارالاِفتاء


ادارہ وقف بورڈ جو حکومت ہند کے تحت چلتا ہے، اس ادارے میں ائمہ مساجد اور قاضی شہر کا تقرر اور ان حضرات کو اس سے تنخواہ لینا شرعا کیسا ہے؟ ایسے اماموں کے پیچھے نماز پڑھی جائے یانہیں؟

فتاویٰ #1763

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- یہ نرسمھا راو(سابق وزیر اعظم ہند )نے مسلمانوں کو بےوقوف بنانے کے لیے اور بابری مسجد کو شہید کرنے اور پھر وہاں مندر کی تعمیر کرنے اور پھر احتجاج کرنے والے نہتے مسلمانوں کے قتل عام سے مسلمانوں میں جو کانگریس سے عام بیزاری اور تنفر پیدا ہوچکا ہے، اسے دور کرنے کے لیے ایک ڈھونگ رچایا ہے۔ نہ ابھی کہیں تنخواہ لینے کا پتا ہے اور نہ دینے کا پتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کے دفتروں میں بند ہے۔ البتہ نرسمھا راو کے دلال جمیل احمد الیاسی دیوبندی نے اور وقف بورڈ کے دیوبندی عملہ نے پانچ روپے کا فارم پچاس۰ ۵ اور سو۱۰۰ روپے میں بیچ کر حریص لالچی لوگوں سے لاکھوں روپے جمع کرلیے۔ بہر حال! یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے تو گورنمنٹ سے ائمۂ مساجد، مؤذنین، قاضی صاحبان کو تنخواہ لینا ناجائز نہ ہوگا۔ البتہ مساجد کے منتظمین کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ پھر مؤذن اور امام ان کے اختیار میں نہ ہوں گے۔ کسی کو الگ کرنا جوے شیر لانے کے برابر ہوگا۔ اورنمازیوں کویہ یقین کرلینا پڑےگا کہ پھر جامع شرائط امام کا ملنامشکل ہوگا۔ اہل سنت کو خصوصیت سے محتاط رہنا پڑےگا۔ دیوبندی تقیہ کرکے سنیوں کی مسجدمیں گھسنے لگیں گے، پھر ان کو نکالنا مشکل ہوگا۔ مقدمے بازیاں ہوں گی۔ جیسا کہ عربی مدارس میں اس کا مشاہدہ ہے۔ اکثر مدارس میں نااہل، ناکارے مدرسین، دیوبندی گھسے ہوئے ہیں۔ پڑھائی لکھائی رخصت۔ ہر وقت گرانی الاؤنس، ایرئیر، پینشن، کوارٹرا لاؤنس کی بحثیں ہوتی رہتی ہیں اور اراکین بالکل بے بس ہیں۔ إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔ محض گورنمنٹ سے تنخواہ لے لینے سے ان کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ یا ناجائز نہیں ہوگا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved