8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک مسافر نے فجر کی نماز میں امام کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ تم ناپاک ہو؛ نماز نہیں پڑھا سکتے، پھر امام نے ہی نماز پڑھائی اور مسافر سمیت سبھی مقتدیوں نے نماز پڑھی۔ مسافر مسجد کے باہر ایک شخص سے یہ بتا کر چلا گیا کہ امام نے رات میں مجھ سے لواطت کرنے کو کہا اور میرا عضو تناسل پکڑتا رہا، یہاں تک کہ اپنا کپڑا خراب کرلیا، مسافر کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی۔ امام اس الزام سے سرے سے انکار کرتا ہے، ہاں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ سونے کے وقت از راہ ہمدردی میں نے مسافر سے پوچھا کہ تمہارے پاس اوڑھنے پچھانے کے لیے کچھ ہے؟ مسافر نے کہا ایک چادر ہے، امام نے کہا کہ میرے پاس ایک گدا اور ایک لحاف ہے، میرے ساتھ سو جائیے۔ نماز کے بعد امام اور مسافر کی ملاقات نہیں ہوئی، اور جس آدمی کو مسافر نے یہ بات بتائی اس نے عوام میں یہ بات پھیلا دی کہ امام گنہ گار ہے، جس پر لوگوں نے یقین کرلیا۔ اور اب اس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ سوال یہ ہے کہ امام قابل امامت ہے یا نہیں؟ جب کہ امام ان سب ناپاک حرکتوں کو جھوٹ اور الزام بتاتا ہے۔ شرع ان تمام لوگوں پر کیا فیصلہ کرتی ہے، جلد جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ #1708

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- مسافر نے امام پر ایک الزام لگایا، وہ بھی بہت گندا۔ امام اس الزام سے انکار کرتا ہے، ایسی صورت میں شریعت کی رو سے عینی گواہ بقدر نصاب ضروری ہے، اور یہاں کوئی گواہ نہیں ہے، اور مسافر بھی غائب ہوگیا۔ ایسی صورت میں امام پر کوئی جرم ثابت نہیں، اور امام کے پیچھے نماز بلا کراہت درست۔ یہ صحیح ہے کہ لواطت بہت گھناونا گناہِ کبیرہ ہے، مگر مسلمان وہ بھی امام کی عزت بھی بہت بڑی چیز ہے، اگر صرف لوگوں کے کہہ دینے سے لواطت ثابت ہوجائے تو پھر امن اٹھ جائے، لوگوں کی عزت و آبرو محفوظ نہ رہے، اس لیے قانوناً بھی ملزم کے انکار کے بعد بغیر گواہ کے لواطت ثابت نہیں ہوگی۔ پھر یہاں اس کا قرینہ بھی ہے کہ مسافر جھوٹ بولا ہے: اولاً ساٹھ سال کا بوڑھا لواطت کامحل ہی نہیں۔ ثانیاً اگر یہ بات صحیح بھی ہوتی تو اس نے امام کے پیچھے کیسے نماز پڑھی؟ مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر شریعت کے اصول کے مطابق چلنا چاہیے۔ یہ توچلتا پھرتا مسافر تھا، حضرت فاروق اعظم کے عہد مبارک میں ایک صاحب پر زنا کا الزام لگایا گیا، چار گواہ پیش ہوئے، تین گواہوں نے قطعی طور پر زنا کی گواہی دی، ایک گواہ نے شبہہ بیان کیا۔ تین گواہوں میں سےایک گواہ بہت جلیل القدر صحابی حضرت ابو بکرہ بھی تھے، جن کے بارے میں شبہہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور زنا جیسے فعل قبیح کی جھوٹی گواہی دے رہے ہیں، مگر چوں کہ زنا کے ثبوت کے لیے چار مردوں کی گواہی شرط ہے۔ قرآن مجید میں ہے: لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ١ۚ۔ اس لیے فاروق اعظم نے ملزم کی براءت کا حکم دیا اور ان تینوں گواہوں پر حد قذف جاری فرمائی۔ اس کی روشنی میں مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ یہاں تین گواہوں میں ایک جلیل القدر صحابی تھے اور دو تابعی تھے، مگر نصابِ شہادت پورا نہ ہوا؛ اس لیے ان کی گواہی مسترد کر دی گئی، اور انھیں سزا دی گئی۔ اور یہاں تو ایک نامعلوم مسافر الزام لگا رہا ہے، اور پھر غائب ہوگیا، پھر اس کا بیان مشتبہ یوں ہے کہ اس نے اس امام کے پیچھے نماز پڑھ لی۔ مسلمانانِ اہل سنت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ دیوبندی، جگہ جگہ سنی علما اور ائمہ کو بدنام کرنے اور انھیں علاحدہ کرنے کے لیے اس قسم کے گندے الزامات لگاتے رہتے ہیں، بمبئی میں ایک زمانے میں ایک منظم سازش کے تحت بد طینت لڑکوں کو پیسے دے کر یہ سب کہلوایا اور بے عقل ٹرسٹیوں نے اماموں کو الگ کردیا۔ بہر حال از روے شرع، امام پر جرم ثابت نہیں، اس کے پیچھے بلا کراہت نماز درست۔ جن لوگوں نے اس گم نام مسافر کے کہنے پر امام کو لواطت کا مرتکب جان کر نماز پڑھنی چھوڑ دی، وہ سب گنہ گار ہوئے۔ جس نے امام کو خبیث کہا، وہ امام سے معافی مانگے، اور توبہ کرے۔ امام صاحب آیندہ احتیاط کریں۔ حدیث میں اس سے ممانعت ہے کہ دو مرد ایک لحاف یا چادر میں سوئیں۔ آیندہ کسی کو بھی اپنے لحاف میں نہ سلائیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved