22 December, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص جسے ’’امت‘‘ کہتے ہیں دیوبندی، وہابی، الیاسی، تبلیغی جماعت والوں کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، کبھی سنیوں کی محفل میں، کبھی تبلیغ والوں کی محفل میں۔ حضور ﷺ کو گنہ گار کہتا ہے۔ گناہ سے مراد عرفانی گناہ شمار کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ کافر کو کافر نہ کہو، حضور مفتی صاحب کیا حکم ہے ؟ موصوف کے پیچھے نماز ہوگی کہ نہیں؟

فتاویٰ #1635

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- سوال میں مذکور امت نامی شخص سوال کے مطابق مسلمان نہیں، اسلام سے خارج، کافر مرتد ہے۔ جب یہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھتا ہے اور حضور اقدس ﷺ کو گنہ گارکہتا ہے، اور کہتا ہے کہ کافر کو کافر نہیں کہنا چاہیے، تو مسلمان نہیں۔ اس کو امام بنانا گناہ ہے۔ اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا فرض ہے۔ مسلمانوں کو اس سے میل جول، سلام کلام کرنا ناجائز و گناہ۔ حضور اقدس ﷺ کو گنہ گارہ کہنا، حضور کی توہین ہے، اور یہ کہنا کہ اس سے عرفانی گناہ مراد ہے، لغو و مہمل ہے۔ اسی طرح کافر کو کافر جاننا اور بوقت ضرورت ، کافر کہنا، ضروریات دین سے ہے۔ جو [بوقت ضرورت] کافر کو کافر نہ کہے، وہ مسلمان نہیں۔ مذہب حق، اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے، جو مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کی تحقیقات کے مطابق اور جمہور اہل سنت کے موافق ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved