22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱) امام جہری نماز میں قراءت میں چھ سات آیتیں پڑھتا ہے اس کے بعد بھی مقتدیوں میں سے ایک کا کہنا ہے کم سے کم ایک رکوع پڑھا کرو تاکہ اگر کوئی آتا ہو تو وہ بھی جماعت میں شامل ہو سکے، تو امام کا ایسا کرنا درست ہے کہ نماز کی حالت میں کسی کا انتظار کرے اور قراءت لمبی کرے ۔ حدیث کی روشنی میں مطلع کریں۔ (۲) ظہر اور عصر کی فرض نماز میں قراءت چاروں رکعت میں کی جائے گی یا دو رکعت ميں؟ حدیث کی روشنی میں مطلع کریں۔

فتاویٰ #1566

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: (۱) نماز میں قراءت کی زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقرر نہیں ہے کم از کم تین چھوٹی آیتیں یا ایک اتنی بڑی آیت جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو، واجب ہے۔ زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ البتہ اتنی زیادہ قراءت کرنی کہ مقتدیوں پر شاق ہو ممنوع ہے۔ اوراگر وقت میں گنجائش ہو اور آدمی حضر میں ہو تو سنت یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل پڑھے، عصر اور عشا میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل۔ اور ان سب صورتوں میں امام ومنفرد دونو ں کا ایک ہی حکم ہے۔ سورہ ٔ حجرات سے آخر قرآن تک کی سورتوں کو مفصل کہتے ہیں، اس کے یہ تین حصے ہیں: اول طوال مفصل سورۂ حجرات سے سورۂ بروج تک، دوم اوساط مفصل سورۂ بروج سے لم یکن تک۔سوم قصار مفصل سورۂ لم یکن سے لے کر آخر تک ۔ تفصیل بالا کے مطابق قراءت کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر چہ مقتدیوں پر شاق ہو۔ اسی طرح تھوڑی سی زیادتی میں بھی حرج نہیں البتہ بہت زیادہ زیادتی نہ کرے۔ جس نے یہ کہا کہ کم از کم ایک رکوع پڑھے صرف سات آيتيں نہ پڑھے اس نے بے علمی کی وجہ سے ایسا کہا۔ بعض آيتیں ایک ایک رکوع سے بڑی ہیں۔ مثلا آیت مداینت۔ یعنی يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ ۔ معیار وہی ہے جو ہم نے اوپر ذکر کیا۔ نماز کو کسی آنے والے کے لیے اس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے طول دینا حرام وگناہ ہے۔ ہاں اگر نیت یہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ لوگ نماز میں شریک ہو جائیں ، ان کی خوش نودی مقصود نہ ہو تو جائز ہے۔ بلکہ اعانت علی الخیر کی وجہ سے موجب ثواب۔ واللہ تعالی اعلم (۲) صرف پہلے کی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد ضم سورہ کرے اور بعد کی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پر اکتفا کرے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved