8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) ہر اذان کے بعد جماعت سے کچھ پہلے صلاۃ وسلام حضور سرور عالم پر تین مرتبہ اذان کی جگہ سے پکارنا حدیث کی روشنی میں ٹھیک ہے یا کہ نہیں؟ (۲) ہر فرض نماز کے فوراً بعد تسبیح ’’حق لا إلہ إلا اللہ‘‘ تین بار اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ ایک بار امام اور مقتدیوں سمیت پکارنا کہاں تک درست ہے ؟ اگر درست ہے تو اس کی مخالفت کرنے والے امام کی اقتدا جائز ہے کہ نہیں ؟ حدیث کے حوالے سے مطلع فرمائیں۔

فتاویٰ #1533

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: (۱) کسی سوال کے جواب میں یہ قید کہ حدیث سے جواب دیا جائے بہت بڑی غلطی ہے؛ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حدیث کے علاوہ اور کوئی چیز سائل کے نزدیک معتبر نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائل کے نزدیک قرآن مجید بھی معتبر نہیں اور یہ صریح کفر ہے علاوہ ازیں امت کا اس پر اجماع ہے کہ حدیث وقرآن کے علاوہ اجماع امت اور قیاس بھی دلیل شرعی ہیں ۔ ہزارہا مسائل شرعیہ قرآن وحدیث میں صراحۃً مذکور نہیں قیاس سے ثابت ہیں ۔ مسلمان کو [اس طرح] سوال کرنا چاہیے کہ یہ کام شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ وہابیوں نے یہ طریقہ نکال رکھا ہے کہ وہ بے پڑھے لکھے سنی مسلمانوں کو ورغلانے کے لیے یہ قید لگاتے ہیں کہ حدیث سے ثابت کرو، جب کوئی شخص یہ سوال کرے تو اس سے پوچھو : آج کل دینی مدرسوں میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان کے بارے میں حدیث میں دکھاؤ کہ ان کے پڑھنے کا حکم ہے۔ دوسری بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہابیوں، دیوبندیوں نے ذہنوں میں یہ بیٹھا رکھا ہے کہ جو کام عہد رسالت وعہد صحابہ وعہد تابعین وعہد تبع تابعین میں نہ ہوا ہو وہ ناجائز وحرام ہے۔ ان لوگوں سے پوچھو کہ اور تو اور بخاری شریف تیسری صدی میں لکھی گئی یہ کیسے جائز ہوا۔ وہابیوں کی ان گمراہ کن باتوں کا رد حدیث شریف میں موجود ہے۔ مسلم شریف میں جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : من سنّ في الإسلام سنۃ حسنۃ یکون لہ أجرہا وأجر من عمل بھا من بعدہ من غیر أن ینقص من أجورہم۔ جس نے اسلام میں اچھا نیا طریقہ ایجاد کیا تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور جتنے لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے سب کے برابر اسے ثواب ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔ اس حدیث سے یہ چند باتیں معلوم ہوئیں : • ایک یہ کہ پہلے سے کسی کام کا نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ کام ناجائز ہے۔ • کوئی بھی اچھا نیا طریقہ ایجاد کرنا ثواب کا کام ہے۔ • اس پر عمل کرنا بھی باعث ثواب ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ اگر کوئی کام فی نفسہ اچھا ہو تو اگرچہ وہ پہلے سے نہ ہوتا ہو باعث ثواب ہے۔ اسی قبیل سے یہ صلاۃ بھی ہے جو اذان کے بعد جماعت سے پہلے کہی جاتی ہے۔ صاحب ہدایہ سے لے کر آج تک تمام فقہا اسے جائز ومستحسن بتاتے آئے ہیں۔ ہدایہ میں ہے: والمتأخرون استحسنوا في الصلوات کلہا لظہور التواني في الأمور الدینیۃ۔ فتاوی عالمگیری میں ہے: والتثویب حسن عند المتأخرین في کل صلاۃ إلا في المغرب۔ وہو رجوع المؤذن إلی الإعلام بالصلاۃ بين الأذان و الإقامۃ۔ و تثويب کل بلدۃ علی ما تعارفوا إما التنحنح أو الصلاۃ الصلاۃ أوقامت قامت؛ لأنہ للمبالغۃ في الإعلام وإنما یحصل ذلک بما تعارفوہ، کذا في الکافي۔ تثویب ہر نماز کے بعد اچھی چیز ہے سواے مغرب کے۔ تثویب کے معنی یہ ہیں کہ اذان کے بعد پھر نماز قائم ہونے کی عام اطلاع کی جائے، اس کے لیے لفظ مقرر نہیں جہاں کے لوگ جس لفظ کو تثویب سمجھیں وہاں کے لیے وہی تثویب ہے۔ مثلاً ’’الصلاۃ الصلاۃ‘‘ کہنا، یا قامت قامت کہنا۔ اب جہاں پر یہ متعارف ہو کہ لوگ ’’الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ‘‘وغیرہ کو تثویب سمجھتے ہوں وہاں یہی صیغہ تثویب ہو گیا کہ اذان کے بعد صلاۃ پکارنا فقہاے احناف کے نزدیک بلا اختلاف جائز ومستحسن ہے۔اذان عموماً جماعت سے آدھا گھنٹہ پہلے ہوتی ہے ۔ اذان سن کر کبھی انسان سوچتا ہے کہ ابھی تو آدھا گھنٹہ باقی ہے۔ کچھ ٹھہر کر چلیں گے یہ کام کر لیں وہ کام کر لیں۔ اس انہماک میں وقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔ درمیان میں اگر صلاۃ کہہ دی جاتی ہے تو نمازی متنبہ ہو جاتا ہے کہ جماعت کا وقت قریب آگیا اسی مصلحت سے تثویب کی ایجاد ہوئی ہے ۔ واللہ تعالی اعلم (۲) امام مسلم ، امام ترمذی ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کرتے ہیں : کان النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- إذا سلم لم یقعد إلا مقدار ما یقول: ’’اللہم أنت السلام ومنک السلام، تبارکت ذا الجلال والإکرام۔ رد المحتار میں ہے: وقول عائشۃ بـ’’مقدار‘‘ لا یفید أنہ کان یقول ذلک بعینہ، بل کان یقعد بقدر ما یسعہ ونحوہ من القول تقریبا۔ أم المومنین کا یہ فرمانا کہ حضور اقدس ﷺ اللہم أنت السلام کہنے کے مقدار بیٹھتے تھے اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعینہ اسی کو پڑھتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ اتنی دیر بیٹھتے تھے جتنی دیر میں یہ، یا اس کےمثل اور کچھ پڑھ سکتے تھے تقریبا۔ اس توجیہ پر دلیل یہ لاتے ہیں کہ احادیث میں دوسری اور بھی دعائیں اس موقع پر پڑھنے کی وارد ہیں ۔ اشعۃ اللمعات شرح مشکاۃ ، باب الذکر بعد الصلاۃ میں ہے : باید دانست کہ تقدیم روایت منافی نیست بعدیتے راکہ درباب بعض ادعیہ واذکار در حدیث واقع شدہ است کہ بخواند بعد از نماز فجر ومغرب دہ بار ’’لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر‘‘۔ اس سے ظاہر ہوا کہ نماز فرض کے بعد اور سنتوں سے پہلے کوئی بھی مختصر ذکر سنت ہے۔ لا إلہ إلا اللہ کا پڑھنا خود حدیثوں سے ثابت ہے، رہ گیا محمد رسول اللہ کا پڑھنا جب کہ علما فرما چکے کہ بعینہ اس دعا کا پڑھنا ضروری نہیں جو حدیث میں وارد ہے بلکہ اس کی مقدار کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں ۔ اس میں کلمۂ طیبہ کا پڑھنا بھی داخل ہے اس وقت کلمۂ طیبہ پڑھنے سے منع کرنا بے علمی کا نتیجہ ہے۔ امام کو سمجھایا جائے اوراگر تحقیق سے ثابت ہو جائے کہ بدمذہب یا وہابی ہے تو اسے فوراً امامت سے علاحدہ کر دیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved