22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱) جمعہ کی اذان ثانی جو منبر کے سامنے ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجد کے اندر ہوتی تھی یا باہر؟ (۲) خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں کہاں ہوتی تھی؟ (۳) ہماری جامع مسجد شہابیہ چشتی جس کے وجود کی عمر اب تک دو سال ہوئی ہے پہلے اذان ثانی اندرون مسجد ہوتی تھی ۔ اب امام صاحب نے خارج مسجد منبر کے سامنے کر دیے ہیں جس بنا پر زید خوب کود پھاند کر طرح طرح سے فتنہ پیدا کر دیا اور الٹے سیدھے دلائل کی لمبی فہرست پیش کر دی جس کے اختتام میں زید نے گستاخی نائب رسول اور اولیاے کرام کی کی ہے ۔ موصوف کی گستاخانہ تحریر ملاحظہ فرمائیں: قول زید: اس طویل ریکارڈ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جو رضا خوانی مولوی اور ان کے بھاڑے کے ٹٹو بات بات پر کفر وارتداد کی توپ لگا دیتے ہیں وہ خود کیا ہیں اور علم وتحقیق کے میدان میں ان کا کیا مقام ہے تمام اہل سنت کو چاہیے کہ وہ ان حوالوں کے معیار پر اپنے عقیدہ کا جائزہ لیں۔ رضا خوانیت کے لاش لادے پھرنے والے لوگوں سے الگ ہو جائیں ۔ اخیر میں یوں دستخط ہے۔ (فضل بدایونی) اذان ثانی خارج مسجد کرادینے کی بنیاد پر زید جملہ ارکان مسجد شہابیہ چشتیہ کو منافق قرار دیتا ہے جیسا کہ ہماری کمیٹی کے صاحب نے موصوف بدایونی کو سلام کیا جس کا جواب نہ دیا اور یہ کہہ دیا کہ ہم منافقوں کے سلام کا جواب نہیں دیتے ہیں، لہذا زید ان اقوال کے پیش نظر عند الشرع کس مقام کے رہے؟ اور اب ہم اذان ثانی کہاں دلوائیں، خلاصہ جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ #1504

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: (1-3) حضور اقدس ﷺ اور خلفاے راشدین کے عہد مبارک میں یہ اذان مسجد کے باہر مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی۔ ابو داؤد شریف میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رضي اللہ تعالی عنہما۔ (وفی روایۃ وعلي بالکوفۃ)۔ رسول اللہ ﷺ جب جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی ۔ اور اسی طرح حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں ہوتا تھا ۔ اور ایسا ہی حضرت علی نے کوفے میں کیا۔ اور کہیں کسی روایت میں یہ نہیں کہ ایک بار بھی حضور اقدس ﷺ وخلفاے راشدین کے عہد مبارک میں مسجد کے اندر وہ بھی منبر کے متصل خطیب کے سر پر ہوئی ہو ۔ اگر مسجد کے اندر اذان دینے کی اجازت ہوتی تو ایک دو بار ہی سہی بیان جواز کے لیے مسجد کے اندر اذان دلوائی گئی ہوتی مگر ایسی کوئی روایت نہیں ہمیشہ ہمیشہ مسجد کے باہر ہی اذان دلوانا اس کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ اذان مسجد کے باہر ہو مسجد کے اندر دلوانا خلاف سنت وبدعت ہے اس لیے مولانا عبد الحی لکھنوی مرحوم نے عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھا: ’’قولہ بین یديہ أي مستقبل الإمام في المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثاني۔‘‘ ’’بین یدی‘‘ کے معنی آگے کے ہیں جو داخل مسجد اور خارج مسجد دونوں کو شامل لیکن اذان خطبہ میں سنت یہی ہے کہ مسجد کے باہر ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جو چیز سنت کے خلاف ہوگی وہ بدعت ہوگی اور زید کے جو اقوال آپ نے نقل کیے ہیں اس کی بنا پر وہ بلا شبہہ اسلام سے خارج کافر ومرتد ہے اس لیے کہ اس نے صرف اس جرم پر کہ دیو بندی شاتمان رسول کو علماے اہل سنت نےکافر ومرتد کہا زید نے یہ لکھا: ’’رضا خانی مولوی اور ان کے بھاڑے کے ٹٹو بات بات پر کفر و ارتداد کی توپ لگا دیتے ہیں وہ خود کیا ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زید گنگوہی ، نانوتوی، انبیٹھی، تھانوی کو کافر نہیں مانتا بلکہ علماے اہل سنت کو کافر جانتا ہے ۔ حالاں کہ یہ چاروں انتہائی درجہ کے گستاخ رسول ہیں جس کی بنا پر علماے عرب وعجم ، حل وحرم ہندوسندھ نے ان چاروں کو کافر کہا وہ بھی ایسا کافر کے ان کے کفر یات پر مطلع ہونے کے بعد جو انھیں کافر نہ جانے وہ بھی کافر۔ حتی کہ علماے بدایوں حضرت مولانا عبد المقتدر، حضرت مولانا عبد القدیر رحمہما اللہ تعالی کا بھی یہی فتوی ہے، تفصیل کے لیے ’’منصفانہ جائزہ‘‘ اور ’’الصوارم الہندیہ‘‘ کا مطالعہ کریں۔ اہل سنت زید کی باتوں پر دھیان نہ دیں ۔ مسئلہ اذان ثانی کی پوری تفصیل وتحقیق مطلوب ہو تو یہ دو کتابیں منگا کر دیکھ لیں: ’’اذان خطبہ کہاں ہو؟ ، تنقید بر محل‘‘۔ اہل سنت اذان خطبہ باہر دلائیں اندر ہرگز نہ ہونے دیں ۔ زید نے جوش غضب میں یہ تو کہہ دیا کہ رضا خانی بات بات پر کفر کی توپ داغتے ہیں مگر اسے خبر نہیں کہ سب سے پہلے بقول اس کے کفر کی توپ بدایوں ہی سے دغی ہے۔ سیف اللہ المسلول حضرت علامہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ نے جو تمام علماے بدایوں کے مورث اعلی ہیں ، سیف الجبار میں سارے دیوبندیوں ، غیر مقلدین، مودودیوں کے شیخ الکل في الکل اسماعیل دہلوی کو کافر لکھا ہے۔ سیف الجبار منگا کر آپ لوگ زید کو دکھا دیں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved