(ایک مفتی کا جواب) الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ بکر کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ خطبہ کی اذان کا اندرون مسجد دینا ساری احادیث اور کتب فقہ کے خلاف ہے، ہاں اس مسئلہ میں زیادہ صحیح یہی ہے کہ جمعہ کی اذان خارج مسجد منبر کے سامنے ہونی چاہیے۔ صورت مسئولہ میں زید کا قول صحیح ہے یا بکر کا؟ ان مفتی صاحب کا جواب درست ہے یا نہیں؟ (حضور شارح بخاری قدس سرہ کا جواب) بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: دوسری اذانوں کی طرح سے اذان خطبہ بھی مسجد کے اندر دینا مکروہ اور ممنوع ۔ اگر اذان خطبہ اس عموم اور اطلاق سے خارج ہوتی تو فقہاے کرام اسے ضرور بیان فرماتے جیسا کہ انھیں فقہا ے کرام نے اذان خطبہ کے بارے میں یہ تصریح کی کہ خطیب کے سامنے ہونی چاہیے۔ دیگر اذانوں کے لیے مسجد کے باہر کوئی جگہ خاص نہیں لیکن اذان خطبہ کے لیے ضروری ہے کہ مسجد کے باہر خطیب کے سامنے ہو۔ تمام فقہاے کرام اذان خطبہ کے بارے میں جب اذان خطبہ کا ذکر کرتے ہیں تو خطیب کے سامنے کی قید لگاتے ہیں، اسی طرح جب ان کے بارے میں ایک حکم عام بیان فرما دیا کہ مسجد کے اندر دینا ممنوع اور مکروہ ہے تو اگر اذان خطبہ اس سے مستثنی ہوتی تو اسے بھی ضرور ذکر کرتے، یہ اس کی دلیل ہے کہ دیگر اذانوں کے طریقے سے اذان خطبہ بھی مسجد کے اندر ممنوع اور مکروہ ہے ۔ کسی حدیث میں یا فقہ کی کتاب میں یہ وارد نہیں کہ خطبہ کی اذان مسجد کے اندر دینا جائز ہے ۔پون صدی (۷۵؍ سال) سے اس کا مطالبہ ہو رہا ہے مگر یہ مفتی صاحب تو کیا ہیں ان کے بہت بڑے بڑے اپنے مقر کو پہنچے نہ کوئی حدیث دکھا سکے اور نہ فقہ کی عبارت ۔ اگر یہ مفتی صاحب دیوبندی ہیں تو ان سے خطاب ہی بے کار۔ دیوبندی شان الوہیت ورسالت میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر ومرتد ہیں۔ پھر ان کے کسی فتوے کا کیا اعتبار۔ ان کا مذہب اور ہمارا مذہب اور ۔ اور اگر سنی ہیں تو ان کا مطالعہ بہت ناقص ہے۔ عام کتب حدیث وفقہ پر انھیں عبو رنہیں اور ایسے کم علم کو فتوی دینا ہی کب جائز ؟ وہ بہر حال خاطی ہیں۔اس مسئلے کی وضاحت بار بار کی جا چکی ہے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org