8 September, 2024


دارالاِفتاء


اذان ثانی جو منبر کے سامنے ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منبر کے سامنے ہوتی تھی کہ منبر کے سامنے باہر؟ خلفاے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانے میں کہاں ہوتی تھی۔ فقہ حنفی کی معتمد کتابوں میں مسجد کے اندر اذان دینے کو منع فرمایا اور مکروہ لکھا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ #1478

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: حضور اقدس ﷺ اور اوائل خلافت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ تک صرف یہی ایک اذان خطبہ ہی تھی جو منبر کے سامنے مسجد سے باہر مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد پاک میں مسلمانوں کی کثرت ہوئی تو انھوں نے پہلی اذان کا اضافہ فرمایا جو بازار میں مقام ’’زوراء‘‘ پر ہوتی تھی۔ اور اذان خطبہ بدستور وہیں ہوتی رہی جہاں عہد رسالت سے ہوتی آئی تھی۔ حضور اقدس ﷺ یا خلفاے راشدین کے عہد میں کبھی بھی کہیں بھی ثابت نہیں کہ اذان خطبہ منبر کے متصل خطیب کے سرپر ہوئی ہو، اور بحمدہ تبارک وتعالی ترکوں کے زمانے تک بھی یہ اذان منبر کے متصل خطیب کے سر پر نہ ہوئی، اسی طرح ترکوں کے عہد تک مسجد حرام شریف میں یہ اذان مطاف کے کنارے پر ہوتی تھی مسجد حرام عہد اقدس میں مطاف ہی تک تھی تو وہاں بھی یہ اذان اس عہد میں خارج مسجد ہی ہوئی۔ ان سب سے یہ ثابت کہ سنت یہی ہے کہ اذان منبر کے سامنے مسجد کے باہر ہو۔ مسجد کے اندر وہ بھی منبر کے متصل اذان دینا بدعت سیئہ ہے۔ ابو داؤد شریف میں ہے: عن السائب بن یزید قال: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ. ثُمَّ سَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ يُونُسَ. أي فلما کان خلافۃ عثمان وکثر الناس أمر عثمان یوم الجمعۃ بالأذان الثالث فأذن بہ علی الزوراء فثبت الأمر علی ذلک۔ یقینا فقہاے کرام نے مسجد میں اذان دینے کو مطلقا منع فرمایا: خلاصہ ،خزانہ ، ہندیہ، بحر الرائق، شرح نقایہ علامہ برجندی اور فتح القدیر میں ہے: لا یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ غنیہ شرح منیہ میں ہے: الأذان إنما یکون في المئذنۃ أو خارج المسجد والإقامۃ في داخلہ۔ اذان صرف مینارے پر ہونی چاہیے یا مسجد سے باہر اور اقامت مسجد کے اندر۔ فتح القدیر کے خاص باب الجمعہ میں ہے : لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ ہے۔ طحطاوی علی المراقی میں : یکرہ أن یؤذن في المسجد کما في القہستاني من النظم ۔ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے ۔ جیسا کہ نظم امام زندویستی سے قسہتانی میں ہے ۔ حتی کہ ماضی قریب کے مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی شرح وقایہ کے حاشیہ عمدۃ الرعایہ میں لکھتے ہیں: قولہ: بین یدیہ أي مستقبل الإمام في المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثاني۔ ’’بین یدیہ‘‘۔ کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ اذان خطبہ امام کے رو برو ہو ۔ رو برو کا معنی مسجد کے اندر پر بھی صادق اور باہر پر بھی۔ سنت یہی ہے کہ اذان خطبہ مسجد کے باہر ہو۔ فقہاے کرام کے ارشادات میں نہ اذان پنج گانہ کی تخصیص نہ اذان خطبہ کا استثنا۔ اس لیے اس عموم میں اذان خطبہ بھی داخل لہذا دیگر اذانوں کی طرح اذان خطبہ بھی منبر کے سامنے مسجد کے باہر ہونا ہی مسنون ہے۔ تو اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ مسجد کے اندر اذان دینا خلاف سنت وبدعت سیئہ ہے ۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved