8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید کا مکان مسجد سے ملحق ہے ، مسجد کی دیکھ بھال بھی زید ہی کرتا ہے ۔ وقت پر باجماعت نماز کی ادایگی کے لیے مستقل امام بھی مقرر ہے ، لیکن مؤذن مستقل کوئی نہیں ہے چناں چہ کبھی کبھی زید بھی اذان دیا کرتا ہے اگرچہ زید بغیر داڑھی کا ہے اور اب تک زید کے بغیر داڑھی کے ہونے کے باوجود اذان دینے پر کسی نے کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں کیا اور بحسن وخوبی نماز پنج گانہ باجماعت ادا ہوتی رہی۔ بکر بھی اسی مسجد میں برابر نماز ادا کرتا ہے اور زید کے اذان دینے پر کبھی بھی معترض نہیں ہوا۔ مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۹۹ء بروز جمعہ عصر کی نماز کے لیے بھی زید نے ہی اذان دی۔ بکر مسجد میں آیا تو اچانک معترض ہوکر یہ کہتے ہوئے دوبارہ اذان دی کہ بغیر داڑھی والے مؤذن کی اذان پر نماز ادا نہیں ہوگی۔ اور خود اذان دوبارہ دی جب کہ بکر کو بتایا گیا کہ اذان ہو چکی ہے۔اس سے کچھ دن قبل یہی بکر ایک داڑھی والے شخص جس نے مسجد کو آباد کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے کے اذان دینے پر یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ تم داڑھی کو تراشتے ہو لہذا تمہاری اذان بھی شرعا درست نہیں ہے حالاں کہ اس شخص کی داڑھی بظاہر ایک مشت معلوم ہوتی ہے بکر بالکل ان پڑھ اور جاہل ہے اس کی اس طرح کی باتوں سے عوام خصوصا نمازیوں کو سخت تکلیف ہے ۔ محلہ کا ماحول خراب ہوتا ہے جو فتنہ کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ براہ کرم مذکورہ مسئلہ کو قرآن وحدیث کی روشنی میں درست کیا ہے بتانے کی زحمت فرمائیں تاکہ ملت میں انتشار نہ پیدا ہو سکے اور یہ بھی بتائیں کہ فتوی کو نہ ماننے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟

فتاویٰ #1444

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: جو شخص داڑھی منڈاہو اس کو اذان دینا مکروہ تحریمی ہے اور اس کی اذان دہرانے کا حکم ہے۔ تنویر الابصار در مختار میں ہے: ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وأذان امرأۃ وفاسق۔ اور شامی میں ہے: ویعاد أذان جنب، زاد القہستاني: والفاجر والراکب۔ اس لحاظ سے بکر نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا پہلے کچھ نہیں کہتا تھا اس کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ اسے معلوم نہ رہا ہو اب کسی عالم نے بتایا ہو تو معلوم ہوا ،بے پڑھے لکھے ضدی عوام کے بے جا اعتراضات کی وجہ سے حکم شرعی نہ چھپانا جائز ،نہ بدلنا جائز اور عوام پر لازم کہ حکم شرعی کو مانیں اور اس پر عمل کریں۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved