22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱) ہمارے گاؤں کی مسجد میں ایک مؤذن ہے جو اذان کے کلمات اس طرح ادا کرتا ہے اعتراض کے باوجود ہٹ دھرمی پر قائم ہے الفاظ بعینہ تحریر ہیں: اللہ کبر، اللہ کبارک، اشہد ان لا الہ اللِّیہِ، اشہد ان محمد رسولُ اللِیہِ، ایّ علی الصلیہِ، ایّ علی الفلیہِ، لا الہ الا للِیہِ۔ اگر حکم دیں تو اذان ٹیپ کر کے بھیجا جاسکتا ہے۔ (۲) مؤذن صرف اذان دیتا ہے اور چلا جاتا ہے نماز سے سروکار نہیں اگر کبھی اقامت کہنی پڑی تو بعد اقامت صف سے نکل کر گھر یا کسی کام سے چلا جاتا ہے۔ لوگوں کے اعتراض پر جواب دیتا ہے کہ اذان میں دیتا ہوں نماز کی ذمہ داری آپ کی، نہیں دل میں آئے گا نہیں پڑھوں گا، جس چیز کی نوکری ہے ادا کرتا ہوں۔ جواب سے نوازیں اذان سے جماعت کا حکم ہے، اور بے نمازی مؤذن کے اذان کا کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ #1432

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: (۱-۲) اس مؤذن کی اذان صحیح نہیں، اس کی اذان پر نماز پڑھنا ایسا ہے گویا بغیر اذان کے نماز پڑھی، پھر یہ مؤذن جب نماز نہیں پڑھتا یا پڑھتا ہے مگر جماعت سے نہیں پڑھتا تو فاسق معلن ہے، اس کی اذان کا دہرانا واجب۔ یہ اس وقت ہے جب صحیح اذان کہتا جب وہ صحیح اذان نہیں کہتا اور اس طرح کہتا ہے جس طرح سوال میں مذکور ہے تو اس کی اذان اذان ہی نہیں، مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس مؤذن کو علاحدہ کر دیں اور اگر یہ نہ مانے ضد کرے تو اس کی اذان کے بعد یا پہلے کسی صحیح خواں مؤذن سے اذان کہلائیں ورنہ سب کے سب اذان چھوڑنے کے وبال میں ماخوذ ہوں گے۔ حدیث میں ہے کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے ایک شخص نے اذان دی اس نے بیجا کھینچ تان کی تو فرمایا: ’’أذن أذانا سمحا وإلا فاعتزلنا‘‘۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved