بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: یہ صحیح ہے کہ فجر کی جماعت اس وقت پڑھی جائے جب خوب اجالا ہو جائے، حدیث شریف میں فرمایا گیا: أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للأجر۔ یہی عامۂ متون میں ہے:ویستحب الإسفار بالفجر۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کہ فجر کی نماز اول وقت میں پڑھ لی جائے اور رمضان شریف میں لوگوں کی نماز فجر کو قضا سے بچانے کے لیے اور جماعت میں شریک کرنے کی نیت سے اگر فجر کی نماز اول وقت میں پڑھ لی جائے تو زیادہ بہتر ہے اس لیے کہ اس میں اعانت علی الطاعت ہے اور ترک صلاۃ وترک جماعت سے صیانت ہے۔ اس فقیر کا بھی اسی پر عمل ہے کہ ماہ رمضان شریف میں فجر کی نماز اول وقت ہی با جماعت پڑھ لیتا ہے، رمضان المبارک میں اول وقت نماز فجر خود آں حضور ﷺ سے مروی ہے ۔ بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : عن أنس بن مالک أن نبي اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- وزید بن ثابت تسحرا فلما فرغا من سحورہما [قال نبی اللہ-صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- إلی الصلاۃ، فصلی، قلنا لأنس: کم کان بین فراغہما من سحورھما] ودخولہما في الصلاۃ قال قدرما یقرء الرجل خمسین آیۃ۔ ترجمہ: زید بن ثابت اور حضور اقدس ﷺ نے سحری کھائی اور اتنی دیر کے بعد کہ کوئی قاری پچاس یا ساٹھ آیتیں پڑھ لیتا فجر کی نماز پڑھی۔ ایک حدیث حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : کنت أتسحر في أہلي ثم تکون سرعۃ بي أن أدرک صلاۃ الفجر مع رسول اللہ ﷺ۔ حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں ہے میں سحری کھا کر بہت تیزی سے مسجد اقدس میں حاضر ہوتا تاکہ نبی ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز پالوں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org