8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہمارے امام صاحب جو خیر سے عالم بھی ہیں نماز میں تاخیر کرتے ہیں خاص طور سےجمعہ کی نماز میں وقت نماز سے آدھے آدھے گھنٹے لیٹ ہو جاتے ہیں، ہمارے یہاں جمعہ کی اذان ۱۲؍ ۵۵ پر ہوتی ہے اور خطبہ کا ٹائم ڈیڑھ بجے کا ہے، قبلہ امام صاحب سوا ایک بجے مسجد میں رونق افروز ہوتے ہیں اور پھر تقریر شروع کر تے ہیں۔ اب وہ کب تقریر ختم کر کے خطبۂ جمعہ پڑھیں گے کچھ کہا نہیں جا سکتا، غرض یہ کہ نماز کا ٹائم مقرر نہیں ہونے سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے جب کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ :جب تم میں سے کوئی امامت کرے تو قراءت مختصر کرے کیوں کہ تم میں مریض بھی ہیں اور بوڑھے بھی ہیں ۔ کیا ایسے مریض اور بوڑھے جو زیادہ دیر نہ وضو رکھ سکتے ہوں اور نہ بیٹھ سکتے ہوں وہ اس حدیث سے باہر ہیں اور پھر آج کل کے اس زمانے میں لوگوں کو نماز میں وقت دینا ویسے بھی بھاری ہے، سیکڑوں بہانے مجبوری کے موجود ہیں اس حالت کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ دوسری مسجدوں میں جانے لگے ہیں جہاں امام غلط عقائد کے ہیں تو ان کی نماز بوجہ مجبوری ہوگی یا نہیں اور اگر نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ؟ کیا نماز کے لیے پابندی وقت صرف مقتدیوں کے لیے ہی ہے اور ائمہ و علما حضرات اس سے بری ہیں؟

فتاویٰ #1414

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: آسانی کے لیے ضروری ہے کہ نماز کا وقت مقرر کر دیا جائے اور امام کو اس کی پابندی کرنی چاہیے، جب مسجد میں جماعت کے پابند نمازی جمع ہو جائیں تو صرف تقریر سنانے کے شوق میں تاخیر کرنا وہ بھی اتنی تاخیر کہ لوگ گھبرا جائیں حتی کہ دوسری مسجدوں میں چلے جائیں سخت ناپسندیدہ ہے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ ایک مسجد میں امام تھے عشا کی نماز میں بہت لمبی قراءت پڑھتے تھے جس سے لوگ گھبراتے تھے، حضور ﷺ کی خدمت میں شکایت کی گئی تو حضور اقدس ﷺ نے انھیں سرزنش فرمائی ، فرمایا: ’’یا معاذ أ فتان أنت‘‘ امام پر اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے مگر اس کی وجہ سے بدمذہب کی اقتدا کی اجازت نہیں جو لوگ بد مذہب کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہیں وہ نماز یں ضائع کرتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved