8 September, 2024


دارالاِفتاء


کنواں کا پانی استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ تفصیل کنواں: کنواں تقریبا چالیس فٹ گہرا ہے، تقریبا بائیس فٹ کے بعد پانی شروع ہوتا ہے جو اٹھارہ فٹ ہے، کنواں سے صرف ڈول کو رسی سے باندھ کر پانی نکال سکتے ہیں کیوں کہ اندر کنواں میں سیڑھیاں وغیرہ نہیں ہیں جو کہ پانی تک اتر کر پہنچ سکیں۔ ہمارے یہاں ایک جامع مسجد عادل پور کے کنویں میں بتاریخ ۱۳؍ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ شب میں کتا گر گیا تقریبا چار بجے صبح کچھ مصلیان مسجد نماز فجر کے لیے جمع ہونا شروع ہوئے تو کنویں میں سے کتے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ تاریکی تھی روشنی کا بر وقت انتظام نہ ہو سکا بعد فراغ نماز فجر کنویں میں دیکھا گیا سطح آب پر کتا تیرتا ہوا زندہ موجود تھا۔ فوری ڈول رسی سے باندھ کر کنویں میں چھوڑ دیا گیا تاکہ کتے کو جو کہ زندہ تھا کنویں سے نکال دیا جائے مگر ڈول سے کتا کو زندہ نکالنے کی کوشش سود مند ثابت نہ ہوئی چوں کہ کتابڑا تھا ۔ بعد میں جھولا پایا گیا جھولے کو رسی سے باندھ کر کنویں میں چھوڑنا ہی چاہتے تھے کہ کتا کنویں ہی میں دم توڑدیا اور کنویں میں غرق ہو گیا اور تہہ تک پہنچ گیا وقت تقریبا صبح سات بجے تھے اس کے بعد تقریبا دس بجے صبح یعنی تین گھنٹے وقفہ کے بعد غوطہ زن نے اس مردہ کتے کو کنویں سے باہر نکال دیا ۔ اس کے بعد مصلیان مسجد اپنی معمولی معلومات کے لحاظ سے کہ کنویں کا پانی ناپاک ونجس ہو گیا ہے لہذا کنویں کا تمام پانی خالی کرنے کی کوشش میں پہلے واٹر پمپ سیٹ (ڈیزل انجن) لایا گیا اس پمپ سیٹ سے مسلسل چار پانچ یوم تک کوشش کی گئی مگر کچھ ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر پمپ سیٹ پچیس فٹ کی گہرائی سے زیادہ پانی نہیں کھینچ سکتا وغیرہ ۔ الغرض اس پمپ سیٹ سے بہ مشکل تمام پانچ فٹ پانی کنویں سے نکالا جا سکا اس کے بعد کنویں میں پانی کی سطح اندرون چھ سات گھنٹے بعد یعنی پھر پہلے ہی کی طرح سطح آب دوبارہ پرانے نشانے پر آگئی۔ اس کے بعد مزدوروں کے ذریعہ ڈول سے کنویں کا پانی نکالنا شروع کیا گیا، پانچ چھ گھنٹے میں پانچ چھ فٹ پانی کنوئیں سے نکالا گیا۔ مزدوروں کے تھک جانے کے بعد پانچ چھ گھنٹے توقف کے بعد دیکھا گیا کنوئیں میں پھر پانی کی سطح چار فٹ بھرتی ہو گئی۔ اس کے بعد پھر پندرہ سولہ یوم کے بعد زیادہ تعداد میں مزدور فراہم کر کے بہ ذریعہ ڈول کنوئیں سے پانی نکالا گیا یعنی صبح نو بجے سے شام چار بجے تک کنویں کا پانی جو اٹھارہ فٹ تھا اس میں سے دس بارہ فٹ پانی نکالا گیا ما بقی پانی چھ سے آٹھ فٹ نکالا نہ جا سکا کیوں کہ کنوئیں کا جھرہ کافی تیز اور بڑا ہے مزدور جو صبح نوبجے سے شام چار بجے تک مسلسل بلا توقف دس بارہ فٹ پانی کنویں سے نکالے وہ تقریبا چار ہزار ڈول سے زائد ہوگا۔ غرض مزدور بہت تھک گئے مگر کنویں کا پانی خالی نہ ہو سکا۔ اور کنویں کے پانی کا استعمال مورخہ ۱۳؍ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ سے اب تک بند ہے جس کی وجہ سے مسجد مذکور میں وضو وغیرہ کے لیے پانی کی تکلیف ہے۔ ساتھ ہی اہل محلہ کے لیے بھی پانی کے استعمال کی تکلیف ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ کنویں کا پانی از روے شرع استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہ ہو تو کس طور سے جائز ہونے کا جواز ہو۔ براے کرم جواب سے مطلع فرمائیں۔

فتاویٰ #1331

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اب یہ کنواں پاک ہو گیا۔ بلا کسی جھجھک کے اس کا پانی وضو ، غسل ، کھانے پینے میں صرف کریں۔ جب کنواں ایسا ہو کہ اس کا پانی ٹوٹتا نہ ہو تو اس کی پاکی کے لیے یہ کافی ہے کہ نکالتے وقت جتنا پانی کنویں میں ہو اتنا نکال دیا جائے۔ تنویر الابصار و در مختار میں ہے: وإن تعذر نزح کلہا لکونہا معینا فبقدر ما فیہا وقت ابتداء النزح۔ اور اگر کنوئیں کے کل پانی کا نکالنا دشوار ہو تو پانی نکالنا شروع کرتے وقت اس کا اندازہ کر کے نکال دیا جاے ۔ آپ کے بیان کے مطابق کنوئیں میں کل اٹھارہ فٹ پانی تھا۔ تین بار میں تقریبا بیس بائیس فٹ پانی نکالا جا چکا؛ اس لیے اب یہ کنواں پاک ہے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved