بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب : بعون الملک الوھاب ۔کسی پیر یا نبی یا شہید یا کسی اور انسان کے نام سے کسی بکر ے یا گاے یا بھینس کو نام زد کردینے سے اگر یہ مراد ہے کہ یہ زید کی بکری ہے یا عمرو کی گاے ہے یا یہ قصاب کی بھینس ہے اور پھر بعد میں بسم اللہ ، اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا گیا تو اس کے حلال و طیب ہونے میں کیا شک ہے ۔ یقینا جائز و حلال ہے اس کو شرک و حرام بتانا سارے مسلمانوں کو مشرک و حرام خور بنانا اور خود بھی مشرک و حرام خور بننا ہے . اور اگر یہ مراد ہوکہ لڑکے کے عقیقہ یا دوست کی ضیافت یا کسی بزرگ کے ایصال ثواب کے لیے یا کسی نبی یا مردہ کی قربانی کے لیے کوئی جانور خریدنا اور یہ کہنا کہ یہ خالد کے عقیقہ کا بکرا ہے یا یہ میرے دوست کی مہمانی کامرغا ہے یا یہ کہ یہ ولی یا شہید کے نذر کا جانور ہے یا یہ حضور ﷺ کی قربانی کی گاے ہے ۔ یا یہ کہنا کہ اس خصی کی قربانی عمرو کے نام سے ہوگی، جیسا کہ ان اطراف میں رواج ہے کہ کوئی قربانی کا جانور خریدتا ہے لوگ یا ذبح کرنے والا پوچھتا ہے کہ کس کے نام سے قربانی ہوگی تو لوگ یہی جواب دیتے ہیں کہ ہندہ کے نام سے یا بکر وغیرہ کے نام سے۔ یہ کوئی نہیں کہتا ہے کہ ذبح و قربانی تو اللہ کے نام سے کرنا اور اس کے گوشت پوست کا ثواب فلاں کی روح کو پہنچاناہے بلکہ اس قسم کے الفاظ سے نام زد کردینے سے یہی مطلب ہوتا ہے اور مسلمان یہی کرتا ہے اگر کسی جانور کو کسی کے نام زد کرتا ہے مگر پھر بھی بسم اللہ ، اللہ اکبر پڑھ کر ذبح یا قربانی کرتا ہے ۔ اس کو حرام و شرک کہنا دنیا کے تمام مسلمانوں کو حرام خور اور مشرک بتانا اور اپنی جہالت و حماقت سے حلال شےکو حرام بنانا اور سارے مسلمانوں کو حرام کھلانا اور خود کھانا ہے ۔ مسلمانوں کو مشرک و حرام خور بنانے والے اور اپنی نادانی سے حلال شےکو حرام بتانے والے اور خود اس کے مصداق بننے والے زمانہ حاضرہ کے وہابیہ ، دیوبندیہ اپنے پیشواؤں کی اندھا دھند ماننے والے ہیں ۔دیوبندیوں کا مایہ ناز مولوی عاشق الٰہی ’’مااھل بہ لغیر اللہ‘‘ پر فائدہ کی رف لکھ کر تحریر کرتا ہے ۔ ’’فائدہ: یعنی جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لے کرذبح کیا جائے تو وہ حرام ہے۔ اسی حکم میں وہ جانور ہے جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نام زد کردیا جائے جیسے پیران کا بکرا وغیرہ، خواہ اس کے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے کر اور بسم اللہ پڑھ کر کیوں نہ ذبح کریں لیکن پھر بھی اس کا کھانا حرام ہے، انتہیٰ بلفظہ‘‘۔ اور ایسے ہی مصنف تقویۃ الایمان نے جہاں بے چارے کمزورمسلمانوں پر شرک کی توپیں چلانا شروع کی ہیں، ایک گولہ اس نام کا بھی مسلمانوں پر چلایا۔ دیکھا ان لوگوں نے کیسی دریدہ دہنی سے حلال شےکو حرام بتاکر مسلمانوں کو حرام خور بنایا ،مشرک بنایا ،خلاف شرع فتویٰ بتایا اور تمام مفسرین کرام کی مخالفت کر کے اپنے گھر سے ایک نیا حکم نکالا تمام مفسرین کرام تو یوں تفسیر فرمائیں ۔ ’’وما أھل بہ لغیراللہ“ معناہ: بأن ذبح علی اسم غیر اللہ بأن قال باسم اللات أو العزیٰ وغیر ذلک۔ ملخصا من التفسیر البیضاوي والصاوي والجلالین والکمالین والتفسیر الأحمدي لملاجیون رحمۃ اللہ علیہ . یعنی ان تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ و ما اھل بہ لغیر اللہ کے یہ معنی ہیں کہ ذبح کے وقت اللہ کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کرنا مثلا بجاے بسم اللہ اللہ اکبر کے یہ کہے باسم اللات یا باسم العزیٰ یا باسم پیر فلاں وغیرہ وغیرہ تو اس کا کھانا یقینا حرام ہے ۔اور اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ ذبح یا قربانی کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا، اگرچہ اس کے پہلے اس جانور کو کسی کے نام سے نام زد کردیا ہو، اس کا گوشت کھانا حلال و طیب ہے کہ اس نے وقت ذبح غیر اللہ کا نام ذکر نہیں کیا بلکہ ذبح کے وقت اللہ کا نام پڑھ کر ذبح کیا۔ حضرت عالمگیر کے استاذ فاضل حضرت مولانا ملاجیون تفسیر احمدی میں وما اھل بہ لغیر اللہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ ومن ھٰھنا علم أن البقرۃ المنذورۃ للأولیاء کما ھو الرسم في زماننا حلال طیب لأنہ لم یذکر اسم غیر اللہ علیھا وقت الذبح و إن کانوا ینذرونھالہ. ‘‘ یہیں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ جو گاے کہ اولیاء اللہ کے نام لوگ نام زد کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے زمانے میں اس کا رواج ہے ( یعنی عالمگیر کے زمانےمیں ) اس کا کھانا حلال و طیب ہے، اس لیے کہ غیر اللہ کا نام وقت ذبح جانور پر ذکر نہیں کیا گیا ۔ لہٰذا جو بکرا کسی پیر یا ولی کے نام منسوب کردیا گیا نام زد کردیا گیا ہو اور وقت ذبح جانور پر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا گیا ہو تو اس کا گوشت کھانا حلال و طیب ہے ۔ واللہ تعالیٰ أعلم ۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org