بسم اللہ الرحمن الرحیم - الجواب: اگر زمین دار مومن انصار کے بازار پر چڑھ گئے اور انصاریوں کے بازار میں ان کو قتل کیا اور مجروح کیا تو شدید ظلم کیا ۔ اس میں جو انصاری قتل ہوئے وہ شہید ہوئے ۔ حدیث میں ارشاد فرمایا: من قتل دون مالہ فھو شہید۔ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے ۔ حدیث میں ارشاد فرمایا: من قتل دون عرضہ فھو شہید۔ جو شخص اپنی عزت کی حفاظت میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔ اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو زمین دار سخت ظالم ہیں اور مقتولین و مجروحین مظلوم ہیں اور ان کی امداد و اعانت باعث اجر و ثواب ہے ۔ یہ زمین داروں کا ظلم بالاے ظلم ہے کہ جن لوگوں نے مظلوموں کی امداد و اعانت کی ان کے دشمن ہو گئے ۔ امام مسجد کو بلا وجہ شرعی امامت سے معزول کرنا بھی امام پر ظلم ہے ، پھر یہ کہنا کہ ہماری مسجد میں آؤگے تو خطرہ پاؤگے، مسجد سے روک دینا ہے ۔ واقعات ما سبق اگر صحیح ہیں تو اس قول کے بعد مسجد چھوڑنا مجبوری ہی سے ہے اور جن لوگوں نے مسجد چھوڑی وہ معذور ہیں کیوں کہ اس میں تفریق زمین داروں کی طرف سے ہے ۔ نئی مسجد چوں کہ اس تفریق کے بعد بنائی گئی ہے اس لیے یہ مسجد باعث تفریق ہر گز نہیں ہو سکتی ۔ مسجد شرعی مسجد ہے ، اس میں نماز درست ہے، اس میں نماز کا اجر و ثواب مسجد ہی کا اجر و ثواب ہے ، اس کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے۔ (۱). یہ مسجد اپنی جدید صورت میں مسجد ہے ، مسجد کے لیے پختہ ہونا شرط نہیں اور مسجد کی کوئی خاص شکل شریعت نے مقرر نہیں کی ہے۔ یہ مسجد جائز اور اس میں نماز درست ۔ اس صورت میں اس مسجد کے لیے مسجد ضرار کا حکم نہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے: لأن المسجد عبارۃ عن الموضع الذي یعبد اللہ فیہ۔ ہدایہ میں ہے: من اتخذ أرضہ مسجدا لم یکن لہ أن یرجع فیہ ولا یبیعہ ولایورث عنہ لأنہ یحرز عن حق العباد وصار خالصا للہ وہذا لأن الأشیاء کلھا للہ تعالیٰ وإذا أسقط العبد ماثبت من الحق رجع إلی أصلہ فانقطع تصرفہ عنہ کما في الإعتاق۔ خود مسجد نبوی ابتدا میں چھپر ہی کی طرح تھی ۔ بخاری شریف میں ہے: اِنَّ الْمَسْجِدَ کَانَ عَلَیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَنِیًّا بِاللَّبِنِ وَسَقَفُہٗ الْجَرِیْدُ وَعُمْدُہٗ خشب النَّخْلِ۔ مسجد نبوی زمانِ رسول ﷺ میں کچی اینٹوں سے بنی تھی اور اس کی چھت شاخ خرما کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑیاں تھیں۔ (۲). یہ مسجد اپنی موجودہ صورت میں مسجد ہی ہے اور اس کا احترام مسلمانوں پر فرض ہے ۔ اگر کوئی اس کی بے حرمتی کرے یا اس کو منہدم کرنے کی کوشش کرے وہ ظالم ہے ، اس کا روکنا مسلمانوں پر ضروری ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس مسجد میں نماز پڑھنا اس محلہ والوں کے لیے افضل ہے ۔ در مختار میں ہے: ومسجد حیہ أفضل من الجامع۔ (۳). جب کہ مالکان مکان نے اپنا مکان مسجد کے لیے وقف کر دیا اور اس میں نماز با جماعت ہو گئی تو اس کے لیے حکمِ مسجد ثابت ہو گیا اور یہ زمین واقفین کی ملک سے نکل کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ملک ہو گئی۔ رد المحتار میں ہے: اعلم أن وقف المسجد یخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسلیم إلی المتولی فیہ عند محمد و في منع الشیوع عند أبي یوسف و في خروجہ عن ملک الواقف عند الإمام وإن لم یحکم بہ حاکم۔ در مختار میں ہے: ویزول ملکہ عن المسجد و المصلی بالفعل و بقولہ جعلتہ مسجدا عند الثاني و شرط محمد و الإمام الصلاۃ فیہ بجماعۃ ۔ نیز اسی میں ہے: وبالصلاۃ بجماعۃ یقع التسلیم بلا خلاف حتی أنہ إذا بنی مسجدا و أذن للناس بالصلاۃ فیہ جماعۃ فانہ یصیر مسجدا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org