بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب : ایمان و کفر یہ شرعی احکام ہیں ، جو لوگ اللہ عز و جل اور اس کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ کے لائے ہوئے تمام احکام کو صحیح طور سے صحیح مانتے ہیں ، شریعتِ مطہرہ کا حکم ہے کہ وہ مومن ہیں ، جو ان میں سے ایک ضروری کا بھی انکار کرے یا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی شانِ پاک میں گستاخی کرے، شریعتِ مطہرہ کا حکم ہے کہ وہ کافر ہے۔ قرآن پاک میں جس طرح ایمان لانے والے کو مومن کہا ہے ۔ اسی طرح کفر کرنے والے کو سیکڑوں جگہ کافر کہا ہے، اور ان کے اقوالِ کفریہ پر حکم کفر دیا ہے۔ ارشاد ہے: لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ. بے شک وہ کافر ہو گئے جنھوں نے حضرت مسیح کو خدا کہا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْھِمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا. یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول معجزات لے کر آئے تو انھوں نے کہا کیا بشر ہمیں ہدایت کرے گا، پس کافر ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی شانِ پاک میں گستاخی کے کلمے کہے۔ جب ان سے دریافت کیا تو انکار کرنے لگے اور بہانہ بنانے لگے، اس پر یہ آیت نازل ہوئیں : لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ. بہانہ نہ بناؤ تم کافر ہو گئے ایمان کے بعد۔ نبیِ کریم ﷺ کی شانِ پاک میں گستاخی کرنے والوں پر قرآن مجید میں حکم کفر دیا۔ ایسے لوگوں کو قرآن مجید میں کافر کہا اور ان کا عذر و بہانہ بھی نہ سنا ۔ لہذا آیتِ کریمہ سے چند امور معلوم ہوئے۔ (۱).کفر کرنے والے کو کافر کہنا حکم شرعی ہے۔ (۲).نبی کریم ﷺ کی شانِ پاک میں بے ادبی اور گستاخی کرنے والے کافر ہیں ۔ ان کے کفر پر قرآن مجید کا فتویٰ ہے۔ (۳).نبی کریم ﷺکی شان میں بے ادبی و گستاخی کرنے والے اگر تاویلیں کریں یا بہانہ بنائیں تو ان کی اس مکاری سے نبی کی توہین کا جرم دفع نہیں ہو سکتا۔ بلکہ جب تک اس جرم سے توبہ نہ کریں اس وقت تک وہ کافر ہی رہیں گے، ان کو کافر ہی کہا جائے گا۔ آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ کفر کرنے والے کو کافر کہنا قرآن مجید کا عام محاورہ ہے۔ بلکہ کافر کو کافر کہنے کا قرآن مجید نے صاف حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے: قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ. لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ. پکار کر کہہ دے اے کافرو، میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کو تم پوجتے ہو ۔ لہٰذا زید کا یہ کہنا کہ کافر کو کافر نہیں کہنا چاہیے ، حکمِ قرآنی کے خلاف ہے، زید کی جہالت پر مبنی ہے اسی طرح زید کا یہ قول کہ کافر کو کافر کہنا کوئی واجب فرض نہیں ۔ یہ بھی سراسرغلط اور حکم قرآن کے خلاف ہے ۔ بہت سے مواقع ایسے ہیں کہ کافر کو کافر کہنا فرض ہے۔ مثلاً ایک شخص نے حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم کے علم غیب کو پاگلوں ، جانوروں کے علم سے تشبیہ دی ،جیسے مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب حفظ الایمان ،ص:۷ پر لکھا کہ: ’’ اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ایسا علم غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے۔‘‘ اس میں سائل نے مفتیِ شرع سے اس کا جواب دریافت کیا کہ حضور کے علم غیب کو ایسا کہنے والا مسلمان ہے یا کافر؟اس وقت اس مفتی پر واجب و فرض ہے کہ وہ حکمِ شرعی بیان کرے اور صاف بتائے کہ یہ نبیِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں سخت گستاخی و بے ادبی ہے، لہٰذا ایسا کہنے والا یقینا کافر ہے ۔ مفتی پر یہ حکم دینا اس لیے ضروری ہے کہ خدا وند قدوس نے علما سے حکم شرعی بیان کرنے کا عہد لیا ہے۔ ارشاد ہے: وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ. اور یاد کرو جب اللہ نے عہد لیا ان سے جنھیں کتاب عطا ہوئی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے بیان کر دینا اور نہ چھپانا۔ لہٰذا اس وقت مفتی پر ضروری ہے کہ وہ بتائے کہ ایسا شخص بحکمِ شرع کافر ہے ۔ اسی طرح وہ گستاخ اور بے ادب باوجود اس کفرِ صریح پر اڑے رہنے کے اسلام کا دعوے دار ہے ، بلکہ اپنے جبہ و دستار سے اسی طرح مسلمانوں کو فریب دیتا ہے اور ناواقف مسلمان اس کے دامنِ تزویر میں پھنس کر بد عقیدہ ہوتے جاتے ہیں ۔تو مسلمانوں کو گم راہی سے بچانے کے لیے ہر اس شخص پر جو اس گستاخ سے واقف ہو ، اس کے کفر کا اظہار کرنا اور یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کافر ہے، اس سے بچو، کیوں کہ حتی الامکان نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ قرآن مجید میں ایمان والوں کی یہی صفت بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہے: تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ . تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔ دوسری آیت میں فرمایا: وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ. مومنین نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔ حدیث کا ارشاد ہے: من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، و ذٰلک أضعف الإیمان. جو شخص بری بات دیکھے اس کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے مٹا دے۔ اگر اتنی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اسے مٹائے اور روکنے کی کوشش کرے اور اگر اتنی بھی قدرت نہیں تو اپنے دل سے برا سمجھے اور یہ کم زور درجہ کا ایمان ہے۔ گم راہ کرنے اور گم راہ ہونے سے بری چیز اور کیا ہے، لہٰذا مسلمانوں کو گم راہی سے بچانے کے لیے ہر واقف شخص پر اس گم راہ کن کے کفر کا اظہار ضروری ہوا، اور اسی طرح جب اس بے ادب اور گستاخ کے چیلے چانٹے اس کی تعریف و توصیف کر کے اس کے کفر پر پردہ ڈالیں اور مسلمانوں کو اس کافر و مرتد کا معتقد بنائیں تو ہر اس شخص پر جو اس کے حال سے آگاہ ہے۔ اس کا کفر ظاہر کرنا ضروری ہے۔ اس پر لازم ہے کہ مسلمانوں کو بتائے اور آگاہ کرے کہ یہ جس کی تعریف و توصیف کر کے تمہیں اس کے جال کے اندر پھانسنا چاہتا ہے۔وہ تمہارے نبی ﷺ کی شان پاک میں گستاخی کرکے کافر و مرتد ہو گیا۔ لہٰذا تم اس سے اور اس کے تمام چاہنے والوں سے بچو! علماے اہل سنت جو مولوی اشرف علی تھانوی اور رشید احمد گنگوہی وغیرہ کو ان کے اقوالِ کفریہ کی بنا پر کافر و مرتد کہتے ہیں اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض ہر گز نہیں ، بلکہ وہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور مسلمانوں کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے وہ شرعی حکم سناتے ہیں جس کی ایسے وقت ضرورت ہے تاکہ مسلمان گم راہ نہ ہوں ۔ تھانوی وغیرہ کے حمایتیوں ، وہابیوں اور دیوبندیوں نے ان مرتدین کے کفر پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ بے اصل مسئلہ تراشا ہے کہ کافر کو کافر نہیں کہنا چاہیے، جس کا بطلان بفضلہٖ تعالیٰ دلائلِ قاہرہ سے ثابت ہو گیا۔ زید اگر بے علم ہے تو دیوبندیوں ، وہابیوں ،تھانوی وغیرہ کے حمایتیوں کی سن کر غلطیوں میں مبتلا ہو گیا ہے۔ لہذا زید کو اس غلطی سے باز آنا چاہیے اور اگر زید ذی علم ہے تو تھانوی وغیرہ کا حمایتی معلوم ہوتا ہے زید کو اس سے توبہ کرنا چاہیے اور جب تک زید توبہ نہ کرے ، مسلمانوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔واللہ تعالیٰ اعلم علمہ اتم و احکم۔ (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org