8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱).افیون کا کھانا جائز ہے یا ناجائز، مکروہ ہے تو مکروہ تنزیہی یا مکروہ تحریمی یا حرام؟ (۲).اورا س کی تجارت کرنا کیسا ہے ، حرام ہے یا حلال، جائز ہے یا ناجائز؟ (۳).افیون کی تجارت سے جو نفع ہوتا ہے اس کو اپنے یا اپنے اہل و عیال یا برادری پر خواہ کسی تقریب کے سلسلے میں صرف کرنا کیسا ہے اور ایسے پیسوں سے خریدی ہوئی کسی قسم کی بھی اشیا ہو استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ کھانے پہننے برتنے کے لیے جو چیز بھی ہو ۔ جواب کافی و شافی مرحمت فرمائیں ساتھ ثبوت کے ،عین نوازش ہوگی۔

فتاویٰ #1190

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: افیون کھانا حرام ہے اگرچہ اس کی حرمت شراب سے کم ہے۔ در مختار میں ہے: ویحرم اکل البنج والحشیشۃ والافیون لکن دون حرمۃ الخمر۔ جب کہ افیون کا کھانا حرام ہے تو اس کی تجارت بھی جائز نہیں ، کیوں کہ تاجر فروخت کرے گا ، کھانے والے خریدیں گے، یہ تجارت افیون کھانے پر اعانت ہوگی۔ یہ اعانت علی الاثم ہوگی جس کے لیے قرآن مجید کا ارشاد ہے۔ وَلَا تَعَاوَنُوْاعَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ اور گناہ اور ظلم پر اعانت نہ کرو۔ جب تجارت ناجائز ہوتی ہے تو اس کی آمدنی بھی ناجائز ہوتی ہے، اگرچہ یہ تجارت اور آمدنی شراب جیسی حرام نہیں ، شراب سے کم درجہ ہے تاہم حرام سے بچنا ہی لازم ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved