بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: حمل کی مدت کم از کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ دو سال ہے ۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے : ’’انھا قالت لا یکون الحمل اکثر من سنتین۔ رواہ الدار قطنی و البیہقی فی سننہما‘‘۔ یعنی مدت حمل دو سال سے زیادہ نہیں ۔حضرت امام اعظم کا یہ مذہب ہے۔ سراجی میں ہے: ’’اکثر مدۃ الحمل سنتان عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ۔‘‘ حمل کی مدت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک۔ صورتِ مسئولہ میں جب کہ عمر و کے پردیس جانے کے سترہ مہینہ بعد بچہ پیدا ہوا تو یہ بچہ چوں کہ مدتِ حمل کے اندر پیدا ہوا ہے ، لہٰذا ثابت النسب ہے اور عمرو کا بچہ ہے ۔ در آں حالے کہ عمرو اور اس کی زوجہ درمیان میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں اگرچہ آنا ثابت نہیں ۔ عدم ثبوت تو کیا ، اگر یہ مان لیا جائے کہ عمرو درمیان میں نہیں آیا تب بھی بچہ عمرو ہی کا ہے کیوں کہ مدتِ حمل کے اندر پیدا ہوا ہے ۔ وھو تعالیٰ اعلم۔ (حاشیہ: یہ فتویٰ صرف سوال کے پیشِ نظر ہے، سوال میں چوں کہ سترہ مہینے کی بات کی گئی ہے، اس لیے جواب میں بھی اس کا ذکر ہوا ورنہ حق یہ ہے کہ نکاح کے بعد کبھی بھی بچہ پیدا ہو وہ شوہر کا ہی قرار پائے گا۔ حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: الولد للفراش وللعاھر الحجر“ بچہ شوہر کا ہے اور زانی کے لیے پتھر۔ اس مسئلہ کی مکمل تحقیق ”امام احمد رضا پر اعتراضات کا ایک جائزہ “ میں ہے۔ مرتب غفرلہ) (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org