بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اگر معمولی طور پر ڈرا دھمکا کر طلاق نامہ لکھوایا ہے جو شرعا اکراہ ملجی نہیں یا اکراہ ملجی تھا مگر زبانی بھی شوہر نے طلاق دی تو ان دونوں صورتوں میں طلاق ہو گئی اور نکاحِ ثانی صحیح ہو گیا۔ نکاح پڑھانے والے پر کوئی الزام نہیں ۔ اور اگر وہ شوہر شرعاً مجبور تھا یعنی اس پر ایسا جبر کیا گیا کہ اسے جان جانے یا ہاتھ پیر توڑنے یا کسی گھر میں قید کیے جانے کا گمان غالب ہوا اور اس نے الفاظ سے طلاق نہ دی بلکہ صرف لکھا ہو تو اس صورت میں طلاق نہیں پڑی اور دوسرا نکاح باطل ہوا۔ عورت اس صورت میں اس دوسرے شخص کے پاس نہ رہے ۔ اس کا اصلی شوہر اگر اسے نہ رکھنا چاہے یا اس کے حقوق زوجیت کو پورا نہ کرتا ہو تو اس صورت میں اس سے طلاق لے لینی چاہیے اور شوہر پر بھی لازم ہے کہ اسے رکھے تو اس کے حقوق کو پورا کرے ورنہ چھوڑ دے، یوں ہی لٹکائے رکھنا سخت گناہ کا باعث ہے ۔ دوسری صورت میں عقد ثانی کا پڑھانے والا اگر اصل حال سے واقف تھا تو اس کو توبہ کرنی چاہیے ۔ عالم گیری میں ہے: ’’رجل اکرہ بالضرب والحبس علی ان یکتب طلاق امرأتہ فلانۃ بنت فلان بن فلان فکتب امرأتہ فلانۃ بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأتہ کذا فی فتاویٰ قاضی خان۔‘‘ نیز اسی میں ہے: ’’لا یجوز للرجل ان یتزوج زوجۃ غیرہ وکذالک المعتدۃ۔‘‘ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org