22 November, 2024


دارالاِفتاء


میرے شوہر نے مورخہ ۹؍ یا ۱۲؍ دسمبر ۵۰ء کو آکر طلاق دیا اور اس طرح سے لکھا جو کہ حسب ذیل مندرج ہے:میں کہ صابر علی ولد امانت علی شاہ موضع بشن پورہ، ٹنٹنوا تھانہ پچپڑوا ضلع گونڈہ کا ہوں جو کہ آج بتاریخ ۹؍ یا ۱۲؍ دسمبر ۵۰ء اپنی عورت عجیب النسا کو جو کہ لال محمد شاہ موضع کبد گورا تھانہ، پچپڑوا، ضلع گونڈہ کی لڑکی ہے اپنی خوشی، رضا مندی و درستی عقل سے طلاق دیتا ہوں اور یہ اقرار کرتا ہوں کہ مسماۃ سے مجھے کوئی واسطہ نہیں اور جو کچھ زیور وغیرہ تھا وصول پا کر اقرار نامہ بطور رسید لکھ دیا کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام دے۔ اسی طرح سے لکھا اور زیور واپس لیا ۔ زیور جب لے لیا تو ایک تیسرا آدمی طلاق نامہ نوچ کر پھینک دیا اور چلے گئے تو طلاق ہو گئی کہ نہیں اوربچپن میں صرف رسم ادا کرنے شوہر کے گھر گئی تھی ، عدت کیا ہے اور مہر کا کیا حق ہے۔

فتاویٰ #1128

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: جب کہ صابر علی نے اپنی بی بی عجیب النسا کو طلاق نامہ میں لکھ دیا کہ میں تمھیں طلاق دیتا ہوں اور زیور وغیرہ وصول پا کر اقرار نامہ لکھ دیا توطلاق واقع ہو گئی۔ اس کے بعد طلاق نامہ کو پھاڑ کر پھینک دینے سے طلاق واپس نہیں آتی۔ طلاق نامہ صرف ثبوت کے لیے تھا۔ مگر جب کہ گواہان موجود ہیں تو طلاق ثابت بھی ہے ۔ صحبت یا خلوت صحیحہ سے عدت واجب ہوتی ہے ، جب کہ بچپن میں صرف رسما رخصتی ہوئی تھی اس کے بعد نہ صحبت ہوئی نہ خلوت صحیحہ تو عدت نہیں ۔ عجیب النسا فوراً اپنا نکاح کر سکتی ہے۔ اس صورت میں صابر علی پر آدھا مہر ادا کرنا واجب ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved