8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہندہ کے والد کے انتقال کے بعد اس کی والدہ نے نابالغی میں ہندہ کا عقد ایک دیو بندی خاندان کے لڑکے سے کر دیا ۔ مگران لوگوں نے عقد کے بعد سے ہندہ یا ہندہ کے وارثوں سے کوئی تعلق نہ رکھا ۔ یعنی رواج کے لحاظ سے کبھی یہ نہ سمجھا کہ کوئی رشتہ اس گھر کے لوگوں سے بھی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد لڑکے نے بمبئی سے بذریعہ خط طلاق دے دیا ۔ اس خط کو لے کر ہندہ کی طرف سے بعض لوگ لڑکے کے والدین وغیرہ کے پاس گئے ۔ اتفاق سے لڑکا بھی آگیا تھا ۔ اس نے انکار کر دیا کہ خط میرا نہیں ہے ، نہ میں نے طلاق دیا ہے ۔ ہندہ بالغ ہو چکی ہے ۔ اس کی رخصتی لڑکے کے والدین چاہتے ہیں مگر ہندہ کسی طرح رخصتی پر راضی نہیں ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ اس نے ضرور طلاق دے دیا اور وہ خط جو تھا پھاڑ کر پھینک دیا گیا اسی کا تھا ، اس کا انکار کرنا غلط ہے ۔ وہ جھوٹ بولتا ہے ، اس کے مذہب میں جھوٹ بولنا جائز ہے بلکہ ان لوگوں کو اپنا پیشوا مانتے ہیں جن کا خدا جھوٹ بولتا ہے اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال جانتے ہیں ۔ میں اپنی جان ضائع کر دوں گی مگر دیو بندی خاندان کے لڑکے کے قابو میں اپنے کو نہیں دوں گی ۔ دریافت طلب یہ امر ہے کہ مذکورہ بالا واقعات سے طلاق ہو گئی یا بوجہ مذہبی خرابی ہندہ اپنے کو روک کر دوسرا نکاح کر سکتی ہے ؟ بینوا و تو جروا۔

فتاویٰ #1088

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: دیوبندی اپنے عقائدِخبیثہ کفریہ کی بنا پر اسلام سے خارج ہیں ۔ علماے دیوبند ، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ نے نبیِ کریم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی شان پاک میں سخت سخت گستاخیاں کی ہیں ، اس لیے علماے عرب و عجم نے ان پر کفر و ارتداد کا فتویٰ دیا ہے ، جس کی تفصیل حسام الحرمین شریف میں مذکور ہے ۔ لہٰذا لڑکا مذکور فی السوال اگر دیوبندی ہے اور علماے دیوبند کو اپنا پیشوا مانتا ہے تو اس کے ساتھ ہندہ کا نکاح ناجائز اور باطل ہے ۔ ہندہ آزاد و مختار ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved