8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک لڑکی کی شادی کی بات چیت چار سال تک رہی۔ اس مدت کے اندر لڑکی والوں نے تین بار سر و سامان کیا، مگر لڑکے والوں نے برابر اس کو دھوکا دیا، لڑکی والوں نے تنگ آکر ایک تاریخ مقرر کر دی اور کہا کہ اگر تم اس تاریخ پر نہ آئے تو ہم اپنی لڑکی دوسری جگہ کر دیں گے۔ تو اس تاریخ پر بھی لڑکے والے نہ آئے۔ دس روز کے بعد لڑکے کی والدہ آئی ۔ جب پوچھا گیا تو اس نے یہ کہا کہ تم اپنی لڑکی کا کام دوسری جگہ کر لو ، ہم نہیں کریں گے۔ پھر دو چار روز کے بعد لڑکے کی ہم شیرہ آئی تو اس سے بھی پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ لڑکے کو اس کے بڑے بھائی نے مار کر گھر سے باہر نکال دیا ، وہ نہیں کریں گے، تم دوسری جگہ کر لو ۔ اس بات کے دو چار گواہ بھی ہیں ۔ تب لڑکی والے نے دوسری جگہ سے جو بات آئی تو اس کو زبان دے دیا اور عقد کا دن مقرر ہو گیا تو پہلی جگہ کے لڑکے والے نے یہ کہا کہ ہم نکاح کریں گے۔ خیر لڑکی والے نے کچھ انکار کے بعد پھر اقرار کر لیا اور دولھا کو کپڑے پہنانے کی اجازت بھی دے دیا اور لڑکی کے پاس کپڑے بھی بھیج دیے ۔ مگر لڑکی نے کپڑا پھینک دیا اور عقد سے انکار کیا اور لڑکی بالغ ہے اور کچھ تعلیم یافتہ بھی ہے ۔ تو قوم کے چودھری اور نائی اور دو چار آدمی یہ کہتے ہیں کہ لڑکی انکار کرتی ہے تو کرنے دو مگر شادی وہاں ہوگی جہاں پہلے لڑکی کے باپ نے زبان دی ہے اور اگر نہ ہوگی تو ہم لوگ لڑکی کے باپ کو سزا دیں گے ۔ اور لڑکی بار بار انکار کرتی ہے ، لڑکی راضی نہیں ہوتی۔ اب علماے دین کیا فرماتے ہیں ، لڑکی کا عقد کہاں جائز ہے ، جہاں لڑکی راضی ہے وہاں جائز ہے یا جہاں چودھری اور نائی چاہتے ہیں وہاں جائز ہے؟

فتاویٰ #1075

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: عا قلہ بالغہ عورت اپنے نکاح کی خود مختار ہے، اپنے کفو میں جس سے چاہے نکاح کرے، وہ نکاح صحیح ہے، اگرچہ ولی نے اجازت نہ دی ہو۔ ہدایہ میں ہے: وینعقد نکاح الحرۃ العاقلۃ البالغۃ برضائھا و إن لم یعقد علیہا ولیّ بکرا کانت أو ثیبا۔( ( صورتِ مسئولہ میں اگرچہ باپ نے پہلی جگہ کے لیے اقرار کر لیا اور راضی ہو گیا لیکن جب لڑکی نے کپڑے پھینک دیے اور عقد سے انکار کر دیا تو باپ کا اقرار اور رضا مندی قطعاً بے کار ہے ، جب کہ لڑکی راضی نہیں تو باپ کو اس پر جبر کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، کیوں کہ عاقلہ بالغہ پر ولایت اجبار نہیں ۔ ہدایہ میں ہے: لا یجوز للولی اجبار البکر البالغۃ علی النکاح۔( ( قوم کے چودھری وغیرہ کا یہ کہنا کہ لڑکی انکار کرتی ہے تو کرنے دو مگر شادی وہاں ہوگی جہاں پہلے لڑکی کے باپ نے زبان دی ہے ، محض بے جا ہے ، کیوں کہ عورت عاقلہ بالغہ کا نکاح بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے کوئی بھی نہیں کر سکتا، اس کا باپ چودھری توکیا بادشاہ بھی نہیں کر سکتا ۔ عالم گیری میں ہے: لا یجوز نکاح احد علی بالغۃ صحیحۃ العقل من اب أو سلطان بغیر اذنھا بکرا کانت او ثیبا۔( ( لہٰذا لڑکی کا عقد وہیں ہوگا جہاں لڑکی راضی ہے اور جب کہ اس صورت میں لڑکی کے باپ کو لڑکی کی مرضی کے بغیر نکاح کا اختیار ہی نہیں وہ شرعاً بے قصور ہے ۔ ایسی صورت میں اسے سزا دینا ظلم اور خلافِ شرع ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved