8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص اپنے بچوں کے ساتھ اپنے شہر سے ایک گاؤں میں تیجہ میں شرکت کے لیے گیااور رسومات کے بعد آدمی تو اپنے بچوں کو چھوڑ کر اپنے گھر چلا آیا۔ اس کی ایک لڑکی تھی جس کی عمر گیارہ بارہ سال کی تھی ، وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ اسی گاؤں میں رہ گئی تھی۔ وہاں کے لوگوں نے اس لڑکی کی ماں کو بہلا پھسلا کر اور ناجائز دباؤ ڈال کر یا کوئی لالچ دے کر کسی شخص کے ساتھ اس کا نکاح کرا دیااور باپ کو کچھ خبر نہ کی ۔ جب اس واقعہ کا پتہ اس کے باپ کو ہوا تو وہ لکھنؤ سے آیا اور اس گاؤں میں پہنچا جہاں کہ لڑکی کا نکاح لوگوں نے جبراً کرا دیا تھا۔ اس نے کافی کوشش کے ساتھ اپنی لڑکی کو وہاں سے حاصل کر لیا ۔ اس کے بعد اس نے آج تک وہاں نہیں بھیجا ہے ۔ اس کو عرصہ چار سال کا ہوا اور نہ وہ لڑکی وہاں جانا چاہتی ہے۔ اس حالت میں باپ کی موجودگی ہوتے ہوئے اور تحریر ہذا پر غور کرتے ہوئے نکاح جائز ہے یا نہیں ؟

فتاویٰ #1070

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: اگر حیض وغیرہ بلوغ کی علامتیں پائی جاتی ہیں تو گیارہ بارہ سال کی لڑکی بھی بالغ ہو سکتی ہے۔ اگر اس وقت وہ بالغ تھی تو وہ خود مختار تھی۔ اس کی رضا مندی سے نکاح ہوگا اور اس کو مجبور کرنے کا حق کسی کو نہیں ، نہ ماں باپ کو، نہ کسی اور کو۔ لہذا اگر اس نکاح سے وہ لڑکی راضی تھی یا نکاح کے بعد راضی ہو گئی اور اپنے کوشوہر کے سپرد کر دیا تو نکاح ہو گیا۔ اس صورت میں جب تک پہلا شوہر طلاق نہ دے دوسرا نکاح جائز نہیں ۔ اور اگر نکاح کے وقت لڑکی نابالغ تھی اور ماں کی اجازت سے نکاح ہوا تو یہ نکاحِ فضولی ہوا۔ کیوں کہ باپ کی موجودگی میں ماں کو حقِ ولایت حاصل نہیں ۔ لہٰذا باپ کی اجازت پر موقوف تھا۔ ہدایہ میں ہے: کل عقد صدر من الفضولی ولہ مجیز انعقد موقوفاً علی الاجازۃ. ( ( اگر باپ اجازت دیتا تو درست ہوتا، مگر جب کہ باپ نے اجازت نہیں دی، بلکہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا، جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے تو یہ نکاح باطل ہوا۔ اس صورت میں لڑکی آزاد ہے، جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved