22 November, 2024


دارالاِفتاء


(۱) زمین غیر عشری اور غیر خراجی ہے، اس میں سے غلہ کتنا نکالنا چاہیے؟ (۲) اور یہ کہ زکوٰۃ، صدقہ اور عشر وغیرہ کے مصارف کون کون ہیں، وضاحت سے بیان فرمائیں اور افضل مصرف بھی ذکر کریں۔ (۳) بعض مسلمانوں کو سوال کرنے کی لت پڑ گئی ہے اور عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ تو ہمارے باپ دادا سے ہوتا آیا ہے۔ حالاں کہ یہ لوگ تندرست ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کو دینا جائز ہے ، کیا شرع شریف میں کوئی ممانعت نہیں ہے؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1005

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــ: (۱).جو زمین غیر عشری اور غیر خراجی ہے ، اس کا حکم بھی عشری زمین کا ہے ، یعنی اس کی پیداوار میں سے عشر (دسواں حصہ)نکالنا واجب ہے مثلاً پہاڑ اور جنگل کی زمین نہ عشری ہے نہ خراجی، اس سے شہد حاصل ہو تو اس میں سے دسواں حصہ دیا جائے گا۔ درِ مختار میں ہے: ’’(ویجب) العشر (في عسل) و إن قل (أرض غیر الخراج) ولو غیر عشریۃ کجبل و مفازۃ۔‘‘ ) ( شامی میں ہے: ’’قولہ(أرض غیر الخراج) أشار إلی أن المانع من وجوبہ کون الأرض خراجیۃ لأنہ لا یجتمع العشر والخراج فشمل العشریۃ، وما لیست بعشریۃ ولا خراجیۃ کالجبل والمفازۃ۔‘‘ ) ( یہ حکم جب ہے کہ بادشاہِ اسلام نے اس کی ڈاکوؤں اور باغیوں سے حفاظت کی ہو۔ درِ مختار میں ہے: ’’ویجب العشر في ثمرۃ جبلٍ أو مفازۃ إن حماہ الإمام۔‘‘ ) ( واللہ تعالیٰ اعلم (۲).زکاۃ کے مصارف یہ ہیں: •فقرا۔ •مساکین ۔ •عمال یعنی وہ لوگ جنھیں بادشاہِ اسلام نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔ •مکاتب غلام کہ وہ اس مال سے بدل کتابت ادا کرے اور نصاب باقی نہ رہے۔ • فی سبیل اللہ یعنی راہِ خدا میں مثلاً کوئی حج کو جانا چاہتا ہے، اس کے پاس مال نہیں ہے ، یا کوئی طالب علم ہے کہ علمِ دین پڑھنا چاہتا ہے ، اسے دے سکتے ہیں۔ یہ بھی راہِ خدا میں دینا ہے ۔ • ابن سبیل یعنی مسافر جس کے پاس مال نہ رہا، اسے بھی دے سکتے ہیں، اگرچہ اس کے گھر پر مال موجود ہو، مگر اسی قدر جس سے اس کی حاجت پوری ہو جائے، اس سے زیادہ نہیں۔ • مؤلفۃ القلوب کی زکاۃ منسوخ ہے، اتنا خیال رہے کہ ہاشمی کو مالِ زکاۃ نہ دیا جائے۔ جو مصارف زکاۃ کے ہیں وہ صدقۂ فطر اور عشر کے بھی مصارف ہیں۔ صدقۂ نفل اغنیا کو بھی دے سکتے ہیں۔ قال اللہ تعالیٰ: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِي الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِيْنَ وَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ١ؕ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۰۰۶۰ ) ( صدقات فقرا و مساکین کے لیے ہیں اور ان کے لیے جو اس کام پر مقرر ہیں اور وہ جن کے قلوب کی تالیف مقصودہے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کے لیے یہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ شامی میں ہے: ’’(أي مصرف الزکوٰۃ والعشر) ۔۔۔ و ھو مصرف أیضاً لصدقۃ الفطر والکفارۃ والنذر وغیر ذٰلک من الصدقات الواجبۃ کما في القہستاني۔‘‘ ) ( زکاۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے بھائیوں بہنوں کو دے، پھر ان کی اولاد کو دے، پھر چچا اور پھوپھیوں کو، پھر ان کی اولاد کو، پھر ماموں اور خالہ کو پھر ان کی اولاد کو ، پھر ذوی الارحام یعنی رشتہ داروں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو ، پھر اپنے شہر یا گاؤں کے رہنے والوں کو ۔ اور زکاۃ دینے والے کو یہ بھی چاہیے کہ زیادہ حاجت مند اور زیادہ مستحقِ اعانت کو دیکھے اور سوچے کہ کہاں مالِ زکاۃ صرف کیا جائے گا تو مسلمانوں کے حق میں زیادہ مفید ہوگا۔ جو زیادہ نفع بخش مصرف ہو وہاں دے، نادار طالب علموں کا بھی خیال رکھے، جاہل فقیر کو دینے سے عالم فقیر کو دینا افضل ہے۔ عالم گیری میں ہے: ’’والأفضل في الزکوٰۃ والفطر والنذور الصرف أولاً إلی الأخوۃ والأخوات ثم إلیٰ أولادھم ثم إلیٰ الأعمام والعمات ثم إلی أولادھم ثم إلی الأخوال و الخالات ثم إلیٰ أولادھم ثم إلیٰ ذوی الأرحام ثم إلی الجیران ثم إلی أہل حرفتہ ثم إلیٰ أھل مصرہ أو قریتہ کذا في السراج الوہاج۔‘‘ ) ( در مختار میں ہے: ’’وکرہ نقلھا إلا إلی قرابۃ۔‘‘ ) ( یعنی دوسرے شہر کو زکاۃ بھیجنا مکروہ ہے مگر جب کہ وہاں اس کے رشتہ والے ہوں۔ واللہ تعالیٰ اعلم (۳).پیشہ اور نام کے فقیر جو روزی کما سکتے ہیں، گھر سے آسودہ حال ہیں ان کو دینا منع ہے کہ یہ اعانت علی المعصیۃ ہے ۔ فقیر کہ جس کے پاس کچھ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب تک پہنچے، یا بقدرِ نصاب ہو مگر اس کی حاجتِ اصلیہ میں مستغرق ہو اسے بھی بغیر ضرورت و مجبوری سوال کرنا ناجائز ہے۔ اگرچہ اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں ۔ مسکین جس کے پاس کچھ نہیں ہے ، یہاں تک کہ کھانے اور بدن چھپانے تک کے لیے نہیں ہے، اسے کھانے اور بدن چھپانے کے لیے سوال کرنا حلال ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved