25 November, 2024


دارالاِفتاء


کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ناچیز بھینس کے دودھ کا کاروبار کرتا ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ جو بھینس میرے پاس ہے اس کی زکات ہے یا نہیں؟ تفصیل کے ساتھ تحریر فرمائیں کرم ہوگا۔ نور الحسن طبیلہ والے، غیبی پیر روڈ ، شانتی نگر، بھیونڈی ، مہاراشٹر

فتاویٰ #2652

بسم اللہ الرحمن الرحیم - الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ان بھینسوں پر زکات نہیں ۔ اولا: اس لیے کہ بھینس پالنے والے بھینسوں کو چارہ خرید کر اپنے گھر کھلاتے ہیں ۔ سال کے اکثر حصے میں صرف وہ چرائی پر نہیں رہتیں اور بھینسوں میں زکات اس وقت واجب ہے جب کہ سال کے اکثر حصے میں وہ چرائی پر گزارہ کریں، گھر باندھ کر نہ کھلائی جائیں، وہ بھی اس وقت جب کہ بھینسوں کی تعداد تیس ہو اور ان پر سال گزر جائے۔ ثانیا: اس لیے کہ ان بھینسوں کا حال پیشہ والوں کے آلات کے مثل ہے، اور علما کی کتابوں کے مثل کہ یہ حوائج اصلیہ میں ہیں۔ ان پر زکات نہیں اگرچہ ان کی قیمت لاکھوں لاکھ ہو ، الفتاوی الہندیۃ میں ہے: وکذا کتب العلم إن کان من أہلہ و آلات المحترفین، کذا في السراج الوہاج إھ۔( الفتاوی الہندیۃ، ج:۱،ص:۱۹۰، کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسیرہا وصفتہا وشرائھا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) وجہ اشتراک یہ ہے کہ جیسے آلات محترفین ذریعہ ہوتے ہیں دوسری چیز بنانے کے وہ مقصود بالذات نہیں ہوتے، اسی طرح ان بھینسوں سے مقصود صرف بھینس پالنا نہیں بلکہ دودھ حاصل کرنا ہے ۔ یہ بھینس دودھ حاصل کرنے کا آلہ ہوئیں۔ تو بالضرور ۃ حوائج اصلیہ میں داخل ہوئیں۔ اور حوائج اصلیہ میں زکات نہیں۔ واللہ تعالی اعلم۔ ۶؍ ذو القعدہ ۱۴۰۱ھ(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved