22 November, 2024


دارالاِفتاء


(۱) مفتی جلال الدین احمد امجدی تحریر فرماتے ہیں: قربانی کے مسئلے میں صاحب نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو، یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کا سامان تجارت، یا سامان غیر تجارت کا مالک ہو اور مملوکہ چیزیں حاجت اصلیہ سے زائدہوں‘‘۔ (کتاب انوار الحدیث، ص: ۳۶۳) اس عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے لیے نصاب اور ہے اور زکات کے لیے نصاب اور ہے یعنی دونوں کا نصاب الگ الگ ہے، لیکن بکر نے اس کے بر خلاف یہ کہا ہے کہ جو زکات کا نصاب ہے وہی قربانی کا نصاب ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ بکر کا قول شرعاً کیسا ہے اور مفتی صاحب موصوف کی عبارت کا مفہوم کیا ہے؟ واضح فرمائیں۔ (۲) کتاب ’’انوار الحدیث‘‘ کی مذکورہ عبارت میں سامان غیر تجارت سے کیا مراد ہے؟ اور حاجت اصلیہ کا کیا مطلب ہے؟ دونوں کو مثالوں سے واضح فرمائیں۔ (۳) حضرت صدر الشریعہ علامہ امجد علی علیہ الرحمہ قربانی واجب ہونے کے شرائط کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’تونگری یعنی مالک نصاب ہونا۔ یہاں مال داری سے مراد وہی ہے جس سے صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے، وہ مراد نہیں جس سے زکات واجب ہوتی ہے۔‘‘ (بہار شریعت مطبوعہ اشاعت الاسلام، دہلی، جلد ۱۵، ص:۱۱۰) اس عبارت کا کیا مفہوم ہے واضح فرمائیں۔ (۴) حضرت صدر الشریعہ علامہ امجد علی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص دو سو درم، یا بیس دینار کا مالک ہو، یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دو سو درم ہے وہ غنی ہے اس پر قربانی واجب ہے۔‘‘ (بہار شریعت، جلد ۱۵، ص: ۱۱۰) اس عبارت میں غنی سے کیا مراد ہے؟ اور دو سو درم یا بیس دینار میں کیا فرق ہے؟ واضح فرمائیں۔ (۵) اگر کسی مسلمان کے پاس صرف رقم ہو تو شرعاً اس پر کیوں کر قربانی واجب ہوگی؟ صرف رقم ہونے کی صورت میں شرعا ً ساڑھے باون (۵۲ ) تولہ چاندی کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا؟ یا ساڑھے سات (۷ ) تولہ سونے کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟ (۶) اقل نصاب کا کیا مفہوم ہے؟ مثال سے واضح فرمائیں۔ ڈاکٹر عبد الوحید رضوی، آزاد نگر، ضلع جمشید پور، بہار

فتاویٰ #2622

(۱، ۲، ۳) زکات مال نامی میں واجب ہے غیر مال نامی کتنا ہی کثیر ہو، ان کی قیمت کتنی ہی زائد ہو کروڑوں تک پہنچتی ہو زکات واجب نہ ہوگی ۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: ومنہا : کون النصاب نامیا حقیقۃ بالتوالد والتناسل والتجارۃ ، أو تقدیرا بأن یتمکن من الاستنماء بکون المال في یدہ أو في ید نائبہ۔ وینقسم کل واحد منہما إلی قسمین: خلقي وفعلي، فالخلقي: الذہب والفضۃ، فتجب الزکاۃ فیہما نوی التجارۃ أو لم ینو أصلا أو نوی النفقۃ۔ والفعلي ما سواہما ویکون الاستنماء فیہ بنیۃ التجارۃ أو الإسامۃ، ونیۃ التجارۃ والإسامۃ لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارۃ أوالإسامۃ۔( الفتاوی الہندیۃ، ص: ۱۹۲، ج:۱، کتاب الزکاۃ، الباب الأول فی تفسیرہا وصفتہا وشرائطہا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت.) اس کا حاصل یہ نکلا کہ زکات صرف سونے چاندی اور مال تجارت اور چرنے والے جانوروں میں ہے جب کہ یہ بقدر نصاب ہوں ۔ اب اگر کسی کے پاس کھیت ہے، یا باغ ہے مگر مال نامی میں سے کچھ نہیں تو اگرچہ ان کی قیمت کتنی ہی ہو ان پر زکات نہیں، لیکن اگر ان چیزوں کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے۔ رد المحتار میں ہے: لو لہ عقار یستغلہ، (۱) فقیل: تلزم لو قیمتہ نصابا، (۲) وقیل: لو یدخل منہ قوت سنۃ تلزم، (۳) وقیل: قوت شہر فمتی فضل نصاب تلزمہ ولو العقار وقفا(رد المحتار علی ہامش الدر المختار، ج:۹،ص:۴۵۳، کتاب الأضحیۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت.)۔ اور فتویٰ قول اول پر ہے جیسا کہ مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے فتاوی رضویہ ، جلد ہشتم،ص:۳۸۹ میں تحقیق فرمائی ہے، اس توضیح سے امید ہے کہ آپ کا اشکال دور ہو گیا ہوگا۔ واللہ تعالی اعلم (۴) -غنی کے معنی مال دار کے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص زکات، صدقۂ فطر ، یا کوئی صدقۂ واجبہ نہیں لے سکتا ، مصارف زکات میں فقیر بھی ہے یہ اس کا مقابل ہے۔ درم چاندی کا سکہ ہے، جس کا وزن ساڑھے باون تولے، یا چھپن روپے بھر چاندی ہے۔ مثقال ساڑھے چار (۴ ) ماشے کا ہوتا ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال سونا ہے جو ساڑھے سات (۷ ) تولے ہوتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۵) -کسی کے پاس نقد مثلا : نوٹ اتنے ہوں کہ چھپن روپے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائیں تو اس پر قربانی بھی واجب ہے اور صدقۂ فطر بھی اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو ۔ قربانی واجب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دس ذی الحجہ سے لے کر بارہویں کے غروب آفتاب تک وہ مالک نصاب ہو۔ اور صدقۂ فطر واجب ہونے کے لیے پہلی شوال کی صبح صادق کے وقت مالک نصاب ہو۔ اور اگر اس نقد پر پورا سال گزر جائے تو زکات بھی واجب ہے؛ اس لیے کہ نوٹ ثمن اصطلاحی ہونے کی وجہ سے سونے، چاندی کے حکم میں ہے۔ وجوب زکات کے لیے سونے، چاندی کے نصاب میں سے کسی ایک کی مقدار کو پہنچنا کافی ہے، اس زمانے میں چاندی کی مقدار کم ہے اور سونے کی زیادہ اس لیے اعتبار چاندی کے نصاب کا ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۶) -اقل نصاب سے مراد یہ ہے کہ نصاب کی پہلی مقدار کو پہنچ جائے مثلا چھپن روپے بھر چاندی، یا اس کی قیمت ۔ واللہ تعالی اعلم ۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved