22 November, 2024


دارالاِفتاء


چند مسائل پیش خدمت ہیں ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرما کر ممنون فرمائیں: مقروض پر زکات، صدقۂ فطر واجب ہے یا نہیں اگر مقروض نے لاکھوں روپے قرض لیا بھی ہو اور لاکھوں روپے بطور ادھار کسی کاروبار کے سلسلے میں دیے ہوں مگر ادھار کنندگان نے وہ رقم واپس نہ کی ہو؟ اگر ایسے شخص پر زکات یا صدقۂ فطر واجب نہیں، تو کیا جب تک وہ قرضہ سے سبکدوش نہ ہو اس کو صدقۂ فطر یا دیگر صدقات دیے جا سکتے ہیں؟ نیز ایسی صورت حال میں غلہ یا دیگر پیداوار پر عشر کے لیے کیا حکم ہے؟ کشمیر- ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۰ء

فتاویٰ #2612

جو شخص خود مقروض ہے لیکن اس نے خود اپنا روپیہ دوسروں کو قرض دیا ہے تو اب دونوں کا حساب لگایا جائے اگر اس پر جو قرض ہے وہ دوسروں کو قرض دیے ہوئے روپیوں کے برابر یا زائد ہے تو اس پر زکات ، صدقۂ فطر، قربانی کچھ نہیں، یہ مال زکات لے سکتا ہے۔ اور اگر اس کے اوپر جو قرض ہے وہ کم ہے اور جو روپے اس نے دوسروں کو دیے ہیں وہ زیادہ ہیں مگر قدر نصاب سے کم تو بھی اس پر زکات نہیں اور یہ زکات وفطرہ وغیرہ لے سکتا ہے۔ اور اگر جو روپے اس نے دوسروں کو قرض دیے ہیں وہ بقدر نصاب زائد ہیں تو اس پر زائد روپیوں کی زکات فرض ہے، اس پر صدقۂ فطر بھی واجب ہے اور قربانی بھی۔ مثلااس کے اوپر چالیس ہزار قرض ہیں اور اس نے جو لوگوں کو قرض دیا ہے وہ چالیس ہزار سے کم ہیں یا چالیس ہزار ہی ہیں ، سو دوسو روپے زائد ہیں تو اس پر زکات واجب نہیں اور یہ زکا ت لے سکتا ہے لیکن اگر اس نے لوگوں کو جو قرض دیے ہیں وہ مثلا پچاس ہزار ہیں تو اس پر دس ہزار کی زکات فرض ہے اور صدقۂ فطر وقربانی بھی واجب۔ واللہ تعالی اعلم۔۲۵؍ محرم ۱۴۲۱ھ ۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved