جو شخص خود مقروض ہے لیکن اس نے خود اپنا روپیہ دوسروں کو قرض دیا ہے تو اب دونوں کا حساب لگایا جائے اگر اس پر جو قرض ہے وہ دوسروں کو قرض دیے ہوئے روپیوں کے برابر یا زائد ہے تو اس پر زکات ، صدقۂ فطر، قربانی کچھ نہیں، یہ مال زکات لے سکتا ہے۔ اور اگر اس کے اوپر جو قرض ہے وہ کم ہے اور جو روپے اس نے دوسروں کو دیے ہیں وہ زیادہ ہیں مگر قدر نصاب سے کم تو بھی اس پر زکات نہیں اور یہ زکات وفطرہ وغیرہ لے سکتا ہے۔ اور اگر جو روپے اس نے دوسروں کو قرض دیے ہیں وہ بقدر نصاب زائد ہیں تو اس پر زائد روپیوں کی زکات فرض ہے، اس پر صدقۂ فطر بھی واجب ہے اور قربانی بھی۔ مثلااس کے اوپر چالیس ہزار قرض ہیں اور اس نے جو لوگوں کو قرض دیا ہے وہ چالیس ہزار سے کم ہیں یا چالیس ہزار ہی ہیں ، سو دوسو روپے زائد ہیں تو اس پر زکات واجب نہیں اور یہ زکا ت لے سکتا ہے لیکن اگر اس نے لوگوں کو جو قرض دیے ہیں وہ مثلا پچاس ہزار ہیں تو اس پر دس ہزار کی زکات فرض ہے اور صدقۂ فطر وقربانی بھی واجب۔ واللہ تعالی اعلم۔۲۵؍ محرم ۱۴۲۱ھ ۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org