----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- امام صاحب کو قضا نماز بھی ہرگز ہرگز نہیں پڑھنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ علانیہ قضا نماز پڑھنا ممنوع ہے، جب کہ پوری جماعت کی نماز قضا نہ ہوئی ہو؛ کہ یہ اعلان گناہ ہے۔ پھر قضا پڑھا تھا تو انھیں غلط بیانی کرنی جائز نہ تھی، خصوصاً ایسی صورت میں کہ غلط بیان سے فتنے کا اندیشہ تھا، اور وہ اندیشہ صحیح بھی نکلا۔ عوام بعض باتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں،ایسی باتوں سے بچنا ضروری ہے۔ اِتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّھَم۔[حاشیہ: ذَكَرَہُ فِي ’ الإحْيَآء ‘ وقال العراقي في تخريج أحاديثہ: ’’ لم أجد لہ أصلا؛ لكنہ بمعنی قول عمر: من سلك مسالك الظن اتہم۔ ورواہ الخرائطي في’ مكارم الأخلاق‘ مرفوعا بلفظ : من أقام نفسہ مقام التہم فلايلومن من أساء الظن بہ۔ وروی الخطيب في’ المتفق والمفترق‘ عن سعيد بن المسيب، قال: وضع عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ ثماني عشرۃ كلمۃ كلہا حكم۔۔۔ منھا : ومن عرض نفسہ للتہمۃ فلا يلومن من أساء بہ الظن۔ ۔۔ إلخ۔ ( أنظر تخريج العراقي فی إحياء علوم الدين ، ج: ۴، ص: ۳۶۔) محمد صادق مصباحی] امام پر لازم ہے کہ اس نے جو غلط بیانی کی ہے، اس سے توبہ کرے۔ اگر توبہ کرے تو ٹھیک ہے، ورنہ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ، کما في الغنیۃ والدر المختار. واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org