22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱)-مسجد میں جمعہ کے دن خطبے سے پہلے امام صاحب نے وہابیوں کے اس عقیدے کے جواب میں کہ ’’حضور کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں تھا‘‘ کہا کہ حضور ﷺ کو آسمان کے ستاروں کی تعداد بھی معلوم تھی اس لیے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہیں۔ امام صاحب نے آگے جو جملہ بیان کیا وہ یہ ہے کہ ’’اتنے پردوں کے باوجود بھی معراج شریف میں خداے تعالی کی ذات بھی حضور ﷺ کی نظروں سے نہ بچ سکی تو دنیا کی کون سی چیز بچ سکے گی؟‘‘ (الف) خدا کی ذات کا نہ بچ سکنا ، کیا خدا کی توہین ہے؟ (ب) یہاں توبہ ضروری ہے؟ (ت) ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج تو نہیں؟ (ج) پڑھی ہوئی نمازیں دہرانی پڑیں گی؟ (۲)- اللہ تعالی کی مرضی حضور ﷺ کی مرضی پر موقوف ہے ، کہنا کیسا ہے؟، کیا کفر ہے؟ توبہ ضروری ہے؟ (۳)- اللہ تعالی کو کسی نبی یا ولی کا عاشق کہنا کیسا ہے؟ (۴)- اللہ تعالی پکار اٹھے گا کہنا جائز ہے؟

فتاویٰ #1955

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱)- یہ جملہ ’’خداے تعالی کی ذات بھی حضور ﷺ کی نظروں سے نہ بچ سکی‘‘ بہت سخت بلکہ کلمۂ کفر ہے اس لیے کہ اس کا صریح مفہوم یہ ہے کہ اللہ عز وجل مجبور اور عاجز ہے۔ قائل پر اس کلمے سے توبہ اور اس پر تجدید ایمان اور بیوی والا ہے تو تجدید نکاح بھی لازم ہے۔ اس نے جس دن اور جس وقت یہ جملہ کہا اس وقت سے لے کر اب تک جتنی نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئیں ہیں سب کو دوبارہ پڑھیں۔اور جب تک توبہ وتجدید ایمان نہ کر لے اس کے پیچھے کوئی نماز نہ پڑھیں۔ واللہ تعالی اعلم (۲)- یہ کہنا کہ ’’اللہ عز وجل کی مرضی حضور ﷺ کی مرضی پر موقوف ہے ‘‘ بہت سخت کلمہ ہے اور اپنے ظاہر معنی کے اعتبار سے کلمۂ کفر ہے۔ ا س سے متبادر ہوتا ہے کہ اللہ عز وجل حضور ﷺ کا محتاج ہے، یا اس کے دباو میں ہے۔ قائل پر توبہ وتجدید ایمان وتجدید نکاح واجب ہے۔ صحیح تعبیر یہ ہے کہ اللہ عز وجل حضور ﷺ کی رضا چاہتا ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہے: کلہم یطلبون رضائی وأنا أطلب رضاک یا محمد [حاشیہ: التفسیر الکبیر، اس کے الفاظ یہ ہیں: والإشارۃ فیہ کأنہ تعالی قال: یا محمد! کل أحد یطلب رضائي وأنا أطلب رضاک فی الدارین۔ زیر آیت: ’’ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا١۪ ‘‘۔](ﷺ) ۔ سب میری رضا چاہتے ہیں اے محمد! (ﷺ) اور میں تمہاری رضا چاہتا ہوں۔ واللہ تعالی اعلم (۳)- اللہ تعالی کو عاشق کہنا جائز نہیں۔ عشق: محبت کے اس درجے کو کہتے ہیں جب آدمی محبت میں خبط الحواس ہو جائے۔ اللہ عز وجل اس سے منزہ ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۴)- اس لفظ سے احتراز لازم ہے کہ ’’اللہ تعالی پکار اٹھے گا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اضطراری طور پر کسی دباو کی وجہ سے پکار اٹھے گا۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved