----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱)- امام نے جو کلمات کہے وہ سب کے سب بےجا اور انتہائی نازیبا تھے ۔ اس جملے میں نہ امام کی توہین ہے اور نہ کسی اور کی ۔ امام صاحب کا توبہ کا مطالبہ غلط ہے۔ البتہ اس شخص کی بات بھی بیجا تھی جو اس نے یہ کہا کہ امام صاحب نے نماز جلدی پڑھا دی۔ کسی نماز کے لیے شرعا یہ تعیین نہیں کہ اتنے منٹ اور اتنے گھنٹے میں ہونی چاہیے اگر کسی نے مغرب کی نماز ’’ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۰۰۱ ‘‘ اور ’’ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ۰۰۱ ‘‘سے پڑھادی تو بھی اس پر اعتراض نہیں۔ اس نے بقدر مستحب قراءت کرلی ہے۔ بلکہ کوئی بھی نماز ’’ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۰۰۱ ‘‘اور ’’قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ۰۰۱ ‘‘سے پڑھائے تو نماز بلا کراہت ہو جائے گی۔البتہ [کچھ نمازوں میں یہ] قراءت بقدر مستحب نہیں ہوگی۔مگر اس سے نماز میں کوئی فتور نہیں آئے گا۔ امام صاحب کی کوئی بات ناپسند ہوتو ادب واحترام کے ساتھ ان سے کہنا چاہیے، چلتے پھرتے طعن وتشنیع کرنا مسلمان کا کام نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۲)- اگر کسی شخص کی داڑھی ایک مشت یعنی چار انگل ہے اور زائد کو کٹوارہا ہے تو وہ فاسق نہیں۔ ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے۔ ہدایہ وغیرہ میں ہے: فالمسنون ہو القبضۃ۔ کٹواکر ایک مشت سے کم رکھنے والا فاسق معلن ہے۔ اسے امام بنانا گناہ۔ اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔ فتح القدیر میں ہے: أما الأخذ منہا وہي دون ذلک فلم یبحہ أحد۔ اگر اس مدرس کی داڑھی ایک مشت یا اس سے زائد تھی تو امام کا انھیں فاسق کہنا حرام وگناہ ہے۔ اور نماز دہرانے کا حکم دینا شریعت پر افترا۔ اس صورت میں جب کہ اس مدرس کی داڑھی ایک مشت یا اس سے زائد ہو امام پر فرض ہے کہ اس مدرس سے معافی مانگے اور علانیہ توبہ بھی کرے۔ واللہ تعالی اعلم (۳)- اس حالت میں امام کو بیان کرنا جائز نہیں ۔ مسجد میں تقریر ایسے وقت کرنی چاہیے جب کہ لوگ نمازوغیرہ میں مشغول نہ ہوں۔ عام مساجد میں اب یہ دستور ہوگیا ہے کہ لوگ نماز یں پڑھتے رہتے ہیں اور امام یا کوئی واعظ تقریر کرتا رہتا ہے یہ جائز نہیں۔ چاہیے کہ پہلے سے یہ اعلان کر دیں کہ ہر جمعہ کو فلاں وقت سے فلاں وقت تک تقریر ہوگی ۔ تقریر کے دوران کوئی سنتیں نہ پڑھے ۔ مقرر صاحب اذان خطبہ سے پانچ چھ منٹ پہلے وعظ بند کردیں تاکہ جن لوگوں نے اب تک سنتیں نہ پڑھی ہوں پڑھ لیں۔ واللہ تعالی اعلم (۴)- اگر امام میں کوئی ایسا شرعی نقص ہے جس کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہوتی یا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے تو کسی کو جائز نہیں کہ اس امام کے پیچھے نماز پڑھے۔ جو بھی پڑھے گا گنہ گار ہوگا۔ جو لوگ امام سے ناراض ہیں اگر وہ اس وجہ سے ناراض ہوں کہ امام میں کوئی شرعی نقص ہے جس کی وجہ سے ان کی نماز فاسد یا مکروہ تحریمی ہوتی ہو تو وہ لوگ ٹھیک کر رہے ہیں ۔ یہی ان کو کرنا واجب ہے۔ اس صورت میں جو لوگ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں وہ گنہ گار ہوں گے۔ اور اگر امام میں کوئی ایسا شرعی نقص نہیں جس کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز فاسد یا مکروہ تحریمی ہو تو جو لوگ امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وہ گنہ گار فتنہ پرور ہیں۔ جماعت میں انتشار پیدا کرتے ہیں۔ مونچھوں کو اتنی بڑی بڑی رکھنا کے بالائی ہونٹ کے کنارے تک آجائیں، خلاف سنت ہے۔ حدیث میں ہے: احفوا الشوارب۔ مونچھوں کو پست کراو ٔ ۔ پست کرانے کا یہی مطلب ہے کہ اتنی چھوٹی ہو جائیں کہ اوپر کے ہونٹ کے کنارے تک نہ آئیں۔ واللہ تعالی اعلم امام نے ان لوگوں کو جو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے منافق کہا ۔ پہلی صورت میں امام کا ان لوگوں کو منافق کہنا حرام وگناہ ہے۔ انھیں منافق کہنے کی وجہ سے امام فاسق معلن ہوگیا ۔ دوسری صورت میں امام نے ایک معنی کر ٹھیک کہا، کیوں کہ یہ لوگ فتنہ وفساد مچا رہے ہیں اور یہ کام منافق ہی کا ہے۔ واللہ تعالی اعلم ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org