8 September, 2024


دارالاِفتاء


امام نیند کی وجہ سے دو ایک روز فجر کی نماز جماعت سے نہ کرا سکا بلکہ کسی دوسرے مقتدی نے جماعت کرادی۔ اس میں ایک مقتدی سے باتوں باتوں میں جھگڑا ہوتے ہوئے امام نے کہا کہ مجھ پر تمہاری حکومت نہیں چلے گی۔ بات بڑھ گئی تو امام نے کہا کہ آج میں عشا کی جماعت نہیں کراؤں گا ، مقتدی نے کہا کہ ہم دیکھ لیں گے کیسے جماعت نہیں کراتے ہو۔ امام نے قصداً عشا کی جماعت نہ کرائی بلکہ کسی ایک مقتدی نے جماعت کرائی تو ایسے امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟ اور امام پر کیا حکم ہوگا۔ اور امام کے اسی بات پر وہ دوسرے محلے کی مسجد میں جاکر نماز پڑھتا ہے، ایسے مقتدی پر کیا حکم ہے؟

فتاویٰ #1883

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- پہلی زیادتی مقتدی کی ہے کہ اس نے ایک دو روز اگر (امام نے) کسی وجہ سے فجر کی نماز نہیں پڑھائی تو وہ امام سے جھگڑ پڑا ، اور اس کو چیلنج کر دیا۔ دوسری غلطی امام کی بھی ہے کہ وہ ایک جاہل کے منھ لگا۔ اور ضد میں آکر محض اس کی بات کو نیچا کرنے کے لیے عشا کی نماز نہیں پڑھائی۔ مگر محض اتنی سی بات پر اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ مقتدی محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسری جگہ نماز پڑھنے جاتا ہے یہ اس کی غلطی ہے مگر اس کی وجہ سے اس پرکوئی گناہ عائد نہیں ہوتا۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved