8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک مسجد کے امام سے اسی محلہ کے کچھ لوگوں نے شرینی لاکر میلاد شریف پڑھنے کو کہا تو امام مسجد نے کہا کہ ’’میلاد شریف پڑھنا کہاں لکھا ہے؟ اگر کہیں لکھا ہو تو ہم پڑھ دیں ‘‘۔ پھر کچھ دنوں کے بعد انھیں امام مسجد سے لوگوں نے میلاد شریف پڑھنے کو کہا تو انھوں نے جوابا کہا کہ ’’پچیس روپیہ دو تب میلاد شریف پڑھوں گا‘‘۔ اسی محلہ کے ایک صاحب نے پچیس روپیہ دیا تو امام مسجد نے میلاد پڑھی۔ اس پر کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ پہلے تو میلاد پڑھنے کے قائل ہی نہ تھے پھر پچیس روپیہ کے نام پر میلاد پڑھ دی۔ (۱) -ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (۲) -ایسے شخص کی امامت درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ #1855

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱-۲) یہ شخص اس لائق نہیں کہ اسے امام رکھا جائے۔ یہ شخص وہابی معلوم ہوتا ہے۔ میلاد شریف پر ایسے سوالات وہابی ہی کیا کرتے ہیں اور وہابی کی نماز نہ نماز ہے نہ وہابیوں کے پیچھے کسی کی نماز صحیح۔ وہابی حضور اقدس ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر ومرتد ہیں اور کسی کافر ومرتد کی اپنی نماز بھی نہیں ہوتی۔ نماز کی صحت کے لیے ایمان شرط ، جب ایمان ہی نہیں تو نماز کیسی؟ در مختار میں ہے: وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved