----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) امام مقتدی سے ہر اچھی بات کہہ سکتا ہے۔ مگر لایعنی، مہمل اعتراضات کی اجازت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) امام کسی مصلحت کی بنا پر جماعت کے لیے جو وقت مقرر ہے، اس میں جلدی اور تاخیر کر سکتا ہے۔ وقت مقرر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت نماز قائم کرنا فرض یا واجب ہے۔ اس میں امام آگے پیچھے بھی کر سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳) نماز میں بلا ضرورت جسم کے کسی حصے کو ہلانا خشوع و خضوع کے منافی ہے۔ اور اگر اتنے حصے میں کسی بیماری کی وجہ سے اضطراری طور پر حرکت ہوتی رہتی ہے تو کوئی حرج نہیں۔ نماز میں تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کسی بھی عضو کا ایک جگہ ٹِکا رہنا ضروری نہیں۔ اس میں بلا وجہ بہت تکلف ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۴) بےپڑھے لکھے، جس کی بھی داڑھی ہوتی ہے، یا شریعت کا پابند ہوتا ہے، اس کو مولانا کہتے ہیں، اس عرف کے اعتبار سے لوگ امام صاحب کو مولانا کہتے ہیں، خصوصا ایسی صورت میں جب کہ وہ امام بھی ہو، وعظ و تقریر بھی کرتا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org