22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱) نسیم نامی شخص نے سرکاری بینک سے سودی قرض کچھ زیورات گروی رکھ کے حاصل کیے، پھر انھیں فکس ڈپوزٹ میں جمع کرادیے، کچھ عرصے بعد اس نے اپنی کمائی سے بینک کا سود مع قرض ادا کردیا، نیز فکس ڈپوزٹ مع سود حاصل کرلیا، گویا اس نے سود دیا بھی اور حاصل کرلیا، ایسے شخص کو امامت کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ نیز اس کی اقتدا میں مقتدیوں کی نماز ہوگی کہ نہیں؟ (۲) یہی نسیم رمضان شریف میں تراویح اور اس میں سماع قرآن ترک کرکے مدارس کی رسیدیں لےکر چندے کی غرض سے نکلتا ہے، اور چندہ اس شرط پر کرتا ہے کہ جو کچھ وصول ہوا، اس کا نصف میرا ہوگا، نیز نصف لےکر اسے بھی فکس ڈپوزٹ میں جمع کردیتا ہے۔ نسیم کا یہ عمل از روے شرع کیا حکم رکھتا ہے؟ (۳) مسجد -جس کا شخص مذکور امام ہے- کے حجروں میں لوگوں کا اجتماع و ہجوم، نیز مسجد کی لائٹ اور پنکھے وغیرہ کا بیجا استعمال اور مسجد کے گھڑے و لوٹے کو گھریلو استعمال میں لانا کیسا ہے؟ (۴) مذکورہ امام اذان و اقامت سننے کے باوجود مسجد کے قرب و جوار میں بیٹھے دنیاوی باتوں میں مشغول رہتا ہے، حتی کہ جماعت فوت ہوجاتی ہے، مجبوراً مؤذن کو نماز پڑھانی پڑتی ہے، آیا ایسا شخص امامت کا حق رکھتا ہے۔

فتاویٰ #1710

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) موجودہ حکومت اور غیر مسلموں کے بینکوں میں روپے جمع کرنے پر جو زائد رقم ملتی ہے وہ سود نہیں۔ حدیث میں ہے: لا ربا بين أہل الحرب، أظنہ قال : وأہل الإسلام ۔ اس لیے مذکورہ بینکوں میں روپے جمع کرنے پر جو زائد رقم ملتی ہے اس کا لینا جائز و حلال۔ البتہ بینک سے قرض لےکر اسے زائد رقم دینا جائز نہیں خواہ مسلمانوں کے بینکوں سے لے یا غیر مسلموں کے بینک سے۔ شامی میں فتح القدیر سے ہے: فَالظَّاہِرُ أَنَّ الْإِبَاحَۃَ بِقَيْدِ نَيْلِ الْمُسْلِمِ الزِّيَادَۃَ، وَقَدْ أَلْزَمَ الْأَصْحَابُ فِي الدَّرْسِ أَنَّ مُرَادَہُمْ فِي حِلِّ الرِّبَا وَالْقِمَارِ مَا إذَا حَصَلَتْ الزِّيَادَۃُ لِلْمُسْلِمِ نَظَرًا إلَی الْعِلَّۃِ ۔ اس لیے اس شخص نے قرض لےکر جو زائد رقم بینک کو دی، اس کی وجہ سے وہ ایک فعل حرام کا مرتکب ہوا، جس کی وجہ سے فاسق ہوگیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) [تراویح کی]جماعت چھوڑنے کی وجہ سے شخص مذکور گناہ کا مرتکب نہیں ہوا، تراویح باجماعت سنت مؤکدہ کفایہ ہے، اگر کچھ لوگ باجماعت تراویح پڑھ لیں تو کسی پر کوئی مواخذہ نہیں۔ البتہ مسجد کے امام کو ہرگز ہرگز نہ چاہیے کہ وہ تراویح چھوڑے جس کی وجہ سے عوام میں چہ می گوئیاں ہوں۔ امام کو ایسے کام سے بچنا ضروری ہے جس میں اندیشۂ ملامت ہو۔ کمیشن پر چندہ وصول کرنا جائز، اس کی وجہ سے امام کو الزام دینا غلط۔ البتہ اسے یہ جائز نہیں کہ وصول شدہ (کل یا جزء) رقم فکس ڈپوزٹ میں اپنے نام سے جمع کرے۔ اس پر واجب ہے کہ بعینہٖ وہی رقوم جو اس نےوصول کی ہیں، اس ادارے کے ذمہ دار کو سپر دکرے، جس کے لیے اس نے وصول کیے ہیں۔ بلکہ اگر یہ رقم زکات و فطرے کی ہو تو اور سخت شنیع، اس لیے کہ زکات و فطرے کی رقوم بغیر حیلۂ شرعیہ کے مدرسہ وغیرہ میں بھی صرف کرنا جائز نہیں چہ جاےکہ اپنے نام بینک میں جمع کرائے۔ اس حرکت کی وجہ سے یہ امام فاسق ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔—[حاشیہ: ’’تحصیل صدقات پر کمیشن کا حکم‘‘ میں حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی دام ظلہ العالی رقم طراز ہیں: عامل جسے قرآن حکیم میں زکات کا مصرف بتایا گیا ہے، اسے بھی بقدر کفایت ہی دینے کی اجازت ہے، حتی کہ اگر اس کے مصارف زیادہ ہوں یا وصولی کم ہو جس کے باعث وصولی کے بیش تر حصہ یا پوری وصولی سے اس کی ضرورت کی کفایت ہوتی ہو تو اب بقدر کفایت بھی دینے کی اجازت نہیں، زیادہ سے زیادہ نصف وصولی سے اس کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ (ص:۲۹، مکتبہ برہان ملت) مشاہدی]-- (۳، ۴) امام کو اس کی اجازت ہوتی ہے کہ اپنے حجرے میں پنکھا بھی چلائے اور لائٹ بھی جلائے، المعروف کالمشروط، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ امام اپنے حجرے میں پنکھا چلائے، لائٹ جلائے۔ خود بھی بیٹھے اور اس کے ساتھ اس کے ملنے جلنے والے بیٹھیں۔ البتہ مسجد کے لوٹے اور گھڑے جو نمازیوں کے استعمال کے لیے ہوں، امام کا یا کسی کا اپنے گھر لےجانا جائز نہیں۔ اس کی وجہ سے بھی امام فاسق ہوگیا۔ بلا عذر شرعی ایک بار بھی جماعت چھوڑنا ناجائز و گناہ ہے، اور اس کی عادت ڈالنے والا فاسق معلن، اس شخص کی جب یہ عادت ہے کہ وہ جماعت کے وقت لوگوں سے گپ شپ کرتا رہتا ہے تو فاسق معلن ہوگیا۔ مذکورہ بالا الزامات جو امام پر لگائے گئے ہیں اس کی وجہ سے وہ ایک نہیں کئی وجہ سے فاسق ہے، وہ بھی فاسق معلن، اسے امام بنانا جائزنہیں، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔ ان جرائم کے ارتکاب کے بعد سے اب تک جنتی نمازیں اس کے پیچھے پڑھی ہیں ان سب کا اعادہ واجب ہے۔ اور آیندہ جو پڑھیں گے ان کا بھی۔ غنیہ میں ہے: لَوْ قَدَّمُوا فَاسِقاً یَّا ثمُوْنَ بِنَاءً عَلَیٰ أَنَّ کَرَاھَۃَ تَقْدِیْمِہٖ کَرَاھَۃُ تَحْرِیْمٍ ۔ در مختار میں ہے: كُلُّ صَلَاۃٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاھَۃِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُھَا ۔ اس پر فرض ہے کہ ان تمام باتوں سے توبہ کرے، اگر توبہ کرلے تو پھر اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر توبہ نہ کرے تو واجب ہے کہ اسے معزول کردیا جائے،اور اگر یہ بھی بس میں نہ ہو تو اپنی الگ جماعت کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved