8 September, 2024


دارالاِفتاء


امامت کن لوگوں کی جائز ہے، اور مسلم برادری میں اس کے حق دار کون کون ہیں؟ نماز پنچ گانہ مسلمانوں پر فرض ہے یا صلاۃ و سلام بآواز بلند؟ اگر کوئی مسلمان نماز پنج گانہ اور جماعت کو چھوڑ کر صلاۃ و سلام کو ضروری سمجھے اس کے لیے کیا حکم ہے؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ ’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کردی، تو اس نے کفر کیا‘‘۔ نیز آداب مسجد کیا ہیں؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1701

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- امامت کامستحق وہ شخص ہے جو سنی صحیح العقیدہ مسلمان ہو، طہارت اور نماز کے فرائض و واجبات، سنن مؤکدہ کو جانتا ہو، شریعت کا پابند ہو، علانیہ گناہ نہ کرتا ہو، فاسق معلن نہ ہو۔ وہ کسی بھی برادری کا ہو امامت کرسکتا ہے، امامت کسی برادری کے ساتھ خاص نہیں۔ جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس پر نماز چھوڑنے کا وبال ہے، لیکن اگر صلاۃ و سلام پڑھتا ہے تو اس کے ثواب کا مستحق ہوگا۔ اور یہ حدیث صحیح ہے کہ:’’جس نے قصداً نماز چھوڑا اس نے کفر کیا‘‘۔ لیکن یہ اپنے ظاہر سے مؤول ہے، اس کا ظاہر معنی مراد نہیں۔ اس پر علما کا اجماع ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافر نہیں۔ ورنہ لازم آئےگا کہ سارے بے نمازی کافر ہوں، مسلمان نہ ہوں۔ اس حدیث کی علما نے دو توجیہیں کی ہیں: ایک: یہ کہ کفر کے معنی ناشکری کے ہیں، اصل معنی یہی ہے۔ اور اس حدیث میں یہی مراد ہے۔ دوسری توجیہ: یہ کی گئی ہے کہ جس نے نماز چھوڑنے کو جائز جان کر نماز چھوڑی وہ کافر ہوا۔ اور اس میں کوئی شبہہ نہیں، کیوں کہ یہ نماز کی فرضیت سے انکار ہے، اور نماز کے فرض ہونے کا انکار کرنا کفر ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved