بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: یہ غلط ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بعد نماز مصافحہ کو مکروہ لکھا ہے۔ احناف کے فقہ کی کتابوں میں اسے مستحسن لکھا ہے۔ در مختار میں ہے: وإطلاق المصنف تبعا للدرر والکنز والوقایۃ والنقایۃ والمجمع والملتقیٰ وغیرہا یفید جوازہا مطلقا ولو بعد العصر، وقولہم: إنہ بدعۃ أي مباحۃ حسنۃ کما أفادہ النووي في أذکارہ وغیرہ في غیرہ۔ مصنف کا درر، کنز ، وقایہ، نقایہ، مجمع، ملتقی وغیر کے تابع ہو کر مصافحہ کو مطلقاً جائز کہنا یہ بتاتا ہے کہ یہ مطلقاً جائز ہے اگر چہ عصر کے بعد ہو۔ اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ بدعت ہے، اس سے مراد بدعت حسنہ ہے جیسا کہ امام نوی نے اذکار اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے دوسری کتابوں میں بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے اس عبارت میں فقہ حنفی کی چھ کتابوں کاحوالہ ہے اور در مختار ملا لیجیے تو سات ہوئیں ان سب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مصافحہ مطلقا جائز ومستحسن ہے اگر چہ عصر کے بعد ہو۔ اور اسی پر قیاس کر کے فجر کے بعد بھی جائز ہوگا۔ علامہ شامی لکھتے ہیں: قال الشیخ أبو الحسن البکري وتقيیدہ بما بعد الصبح والعصر علی عادۃ کانت في زمنہ وإلا فعقب الصلوات کلہا کذلک۔ کذا في رسالۃ الشرنبلالي في المصافحۃ، ونقل مثلہ عن الشمس الحانوتي، وأنہ أفتی بہ مستدلا بعموم النصوص الواردۃ في مشروعیتہا وہو الموافق لما ذکرہ الشارح من إطلاق المتون ۔ شیخ ابو الحسن بکری نے فرمایا : صبح اور عصر کے ساتھ مقید کرنا اس عادت کے بنا پر ہے جو ان کے زمانے میں تھی ورنہ ہر نماز کے بعد ایسے ہی ہے یعنی جائز ومستحسن ہے ۔ جیسا کہ علامہ شرنبلالی کے رسالہ ’’المصافحۃ‘‘ میں ہے اور اسی کے مثل شمس الائمہ حانوتی سے بھی مروی ہے کہ انھوں نے اس کے جواز کا فتوی دیا ان عام نصوص سے دلیل لاتے ہوئے جو اس کے مشروع ہونے میں وارد ہیں اور یہی اس کے موافق ہے جو شارح نے متون کے اطلاق سے اخذ کر کے ذکر کیا ۔ ان سب باتوں سے ظاہر ہو گیا کہ علماے احناف اس پر متفق ہیں کہ نماز فجر وعصر کے بعد جو مصافحہ مسلمانوں میں رائج ہے بلا شبہہ جائز ومستحسن ہے اور یہ کہنا کہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس کو مکروہ کہا ہے ، افترا ہے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org