8 September, 2024


دارالاِفتاء


بعد دفنِ میت قبر پر اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ زید کہتا ہے کہ سنی قبرستان میں بعد دفن میت اذان دینا جائز ومستحب اور ثواب ہے مگر بکر کہتا ہے کہ بدعت وناجائز ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے جواز میں کوئی حدیث نہیں اور قبر پر اذان دینے سے منع کرتا ہے۔ ان دونوں میں کس کا قول صحیح ہے۔ اسی مسئلہ میں علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا قول کہاں تک معتبر ہے؟ کیاو ہ حنفی المسلک تھے؟ مع حوالہ اس پر روشنی ڈال کر رہنمائی فرمائیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ #1539

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: قبر پر اذان دینا بلا شبہہ جائز ومستحسن ہے ، اذان ذکر الہی ہے اس سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے نیز نکیرین کے سوالات کے جوابات کی تلقین بھی۔ امام حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ایک حدیث روایت کی ہے کہ :قبر میں نکیرین کے سوال کے وقت شیطان پہنچ جاتا ہے اور جب وہ پوچھتے ہیں ’’من ربک‘‘ تو وہ اپنی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے ’’میں ہوں ، میں ہوں‘‘۔(حاشیہ: ونص الحدیث ہکذا: روي عن سفیان الثوري أنہ قال: إذا سئل المیت ’’من ربک‘‘ تراءی لہ الشیطان في صورۃ فیشیر إلی نفسہ أي أنا ربک۔ [نوادر الأصول في معرفۃ أحادیث الرسول، ج:۳،ص: ۲۲۷، الأصل التاسع والأربعون والمائتان] محمود علي المشاہدي) بخاری ومسلم وغیرہ میں اذان کے فضائل میں یہ حدیث ہے کہ جب اذان کہی جاتی ہے تو شیطان مقام روحاء تک بھاگتا ہے جو مدینہ طیبہ سے چھتیس میل کی دوری پر ہے۔(حاشیہ: حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن جابر قال سمعت النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقول: إن الشیطان إذا سمع النداء بالصلاۃ ذہب حتی یکون مکان الروحاء ۔ قال سلیمان: فسالتہ عن الروحاء فقال: ہی من المدینۃ ستۃ وثلثون میلا۔ (الصحیح لمسلم،ج:۱، ص:۱۶۷، رقم الحديث:۳۸۸، کتاب الصلاۃ، باب إدبار الشيطان إذا سمع النداء وعودتہ للوسوسۃ۔) محمد نسیم مصباحی) اس حدیث کی روشنی میں قبر پر اذان کا یہ فائدہ ہوگا کہ شیطان کی مداخلت نہیں ہو پائے گی۔ یہ بدعت ضرور ہے مگر بدعت حسنہ ہے بدعت سیئہ نہیں کہ ناجائز ہو۔ علامہ ابن حجر دو ہیں ایک عسقلانی، یہ شافعی ہیں۔ دوسرے مکی، یہ حنفی ہیں۔ شامی میں جو یہ فرمایا ہے: لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ علامہ ابن حجر اس کو ناجائز وحرام بتاتے ہیں، بلکہ شروع میں یہ تھا: إنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ ۔ کما في أذان المولود (إلی أن قال) وعند إنزال المیت القبر۔ یعنی علامہ خیر الدین رملی نے حاشیۂ بحر میں یہ فرمایا کہ میں نے شافعی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بعض موقعوں پر بھی اذان سنت ہے جیسا کہ نومولود بچے کے کان میں یہاں تک کہ فرمایا قبر پر۔ اس سے صاف صاف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض شوافع کی کتابوں میں یہ تھا کہ جس طرح بچے کے کان میں اذان سنت ہے اسی طرح قبر پر بھی اذان سنت ہے۔ علامہ ابن حجر نے یہ فرمایا کہ بچے کے کان میں اذان سنت تو ہے مگر قبر پر سنت نہیں۔ان کے رد کا تعلق سنیت سے ہے اور کسی فعل کے سنت نہ ہونے سے اس کا ناجائز ہونا ضروری نہیں۔ ہزاروں افعال سنت نہیں ہیں مگر مستحب ہیں۔ قدوری میں وضو کی سنتوں کے بیان میں تھا: وتسمیۃ اللہ تعالی في ابتداء الوضو ۔ وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ اس پر ہدایہ میں فرمایا: والأصح إنہا مستحبۃ وإن سماہا في الکتاب سنۃ۔ اصح یہ ہے کہ یہ مستحب ہے اگرچہ کتاب میں اس کو سنت کہا۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا سنت نہیں مگر مستحب ہے، اسی طرح علامہ ابن حجر قبر پر اذان کے سنت ہونے کی نفی فرما رہے ہیں اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ ناجائز وحرام ہو ۔ علاوہ ازیں مدار کار دلیل شرعی ہے علما کا قول نہیں۔ اذان قبر اگرچہ خیر القرون میں نہیں تھی مگر جائز ومستحسن ہے کہ فی نفسہ فعل حسن ہے، حدیث میں ہے۔ من سن في الإسلام سنۃ حسنۃ یکون لہ أجرہ وأجر من عمل بہ من بعدہ من غیر أن ینقص من أجورہم شيء۔ یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اسے اس کا ثواب ہے اور جتنے لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے سب کے برابر اس کو ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ اس لیے کسی چیز کے ناجائز ہونے کی دلیل میں یہ کہنا کہ یہ خیر القرون میں نہیں تھا اس لیے ناجائز ہے ، اس حدیث کا رد ہے۔ اذان قبر کے بارے میں تفصیلی بحث اعلی حضرت قدس سرہ کے رسالہ ’’ایذان الاجر‘‘ میں موجود ہے، اس کا مطالعہ کریں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved