8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہماری مسجد میں آج تقریباً چار مہینے سے صلاۃ پڑھی جاتی ہے اس پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے اور ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ بدعت ہے۔ یہ چیز حضور ﷺ کے زمانۂ مبارکہ میں نہ تھی۔آیا جو لوگ صلاۃ کے منکر ہیں اور صلاۃ پر پابندی لگاتے ہیں اور صلاۃ کو برا جانتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا صلاۃ پڑھنا باعث ثواب ہے یا نہیں؟ اس کا جواب احادیث اور مسائل فقہ کی معتبر کتابوں سے حوالہ دیتے ہوئے جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ #1535

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: اذان کے بعد جماعت سے پہلے صلاۃ پڑھنی باتفاق فقہا جائز اور مستحسن ہے، اسے بدعت بتانا دیوبندیوں کا مذہب ہے ، ہدایہ میں ہے: والمتأخرون استحسنوا في الصلوات کلہا، ۔ متاخرین نے ہر نماز میں تثویب کو مستحسن قرار دیا ہے۔ صلاۃ کا دوسرا نام تثویب ہے ، عالمگیری میں ہے: التثویب حسن عند المتأخرین في کل صلاۃ إلا في المغرب وہو رجوع المؤذن إلی الإعلام بالصلاۃ بین الأذان والإقامۃ۔ وتثویب کل بلدۃ علی ما تعارفوا... لأنہ للمبالغۃ في الإعلام وإنما یحصل ذلک بما تعارفوہ، کذا في الکافي۔ ترجمہ: تثویب متاخرین کے نزدیک مستحسن ہے، مغرب کے علاوہ ہر نماز میں اذان اور اقامت کے مابین مؤذن کا دوبارہ نماز کا اعلان ہے۔ ہر شہر کی تثویب وہ ہے جو متعارف ہے اس لیے کہ یہ نماز کے وقت کی خبر دینے کے مبالغہ کے لیے ہے اور یہ متعارف ہی سے حاصل ہوگا۔ اس لیے جہاں تثویب کے لیے صلاۃ مروج ہے اسے باقی رکھا جائے اور وہابیوں کی بات پر دھیان نہ دیا جائے۔ جو لوگ صلاۃ سے منع کرتے ہیں، یقیناً غلطی پر ہیں تحقیق کیجیے تو ثابت ہوگا کہ ضرور وہابی ہیں۔ صلاۃ سے روکنا یہ وہابیوں کا شعار ہو گیا ہے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved