22 December, 2024


دارالاِفتاء


زید کا کہنا ہے کہ انگوٹھا چومنا بےشک حکم استحباب کا رکھتا ہے اور خود زید بھی اس کا عامل ہے کہ بوقت اذان وتکبیر کے انگوٹھا چومتا ہے لیکن اس کا یہ کہنا ہے کہ جس وقت خطبہ کی اذان ہو اس وقت اور جس وقت آیت شریفہ :’’ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ ، الآیۃ۔۔۔‘‘ پڑھی جائے اس وقت نہیں چومنا چاہیے کیوں کہ خطبہ کا سننا فرض ہے۔ اور جس وقت قرآن شریف پڑھا جائے اس کا سننا اور خاموش رہنا بھی ضروری ہے۔ اور یہ استدلال پیش کرتا ہے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۰۰۲۰۴ ۔ لہذا زید کا یہ کہنا کہ ان موقعوں پر اگر استحباب پر عمل کیا جائے گا ، یعنی انگوٹھے چومے جائیں گے تو تارک فرض ہوگا۔ تو بجاے ثواب کے گناہ ہوگا۔ لہذا ان موقعوں پر انگوٹھے نہیں چومنا چاہیے۔بکر کا یہ کہنا ہے کہ نہیں انگوٹھے چومنے پر اس قسم کا حکم صادر نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ علماے کرام نے ان مقامات پر ایسا فعل کرنے پر گناہ نہیں لکھا ہے۔ لہذا یہ اس چیز کو نہیں پسند کرتا اور نہ ہی اس قسم کا حکم لوگوں کو بتلانا بکر کو پسند ہے۔ اب سوال یہی ہے کہ زید کا قول کہاں تک صحیح ہے اور بکر کا قول کہاں تک صحیح ہے براے کرم استدلال کے ساتھ جو صحیح حکم ہو وہ تحریر فرمادیں۔ ان شاء اللہ الکریم اس پر عمل ہوگا۔ کیوں کہ ہمارا اصلی مقصد صحیح بات معلوم کرنا ہے۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1529

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ اذان خطبہ، وخطبے میں یا تلاوت قرآن مجید کے وقت نام نامی سن کر انگوٹھا چومنا حرام وناجائز نہیں۔ مگر احتیاط اسی میں ہے کہ نہ چومے۔ حرام وہ چیزیں ہیں جو بغور سننے کے منافی ہوں۔ اور انگوٹھا چومنا اس کے منافی نہیں۔ مگر چوں کہ ذہن کے استماع کی طرف سے غافل ہونے کا موجب ہو سکتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ نہ چومے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved