8 March, 2025


دارالاِفتاء


ایک لڑکا انیس (۱۹) سال کا ہے ، دونوں آنکھ سے معذور ہے، پانچوں وقت اذان دیتا ہے، مگر اقامت نہیں کہتا، بعض لوگوں کا کہناہے کہ نابینا کی اقامت صحیح نہیں، اس بارے میں صحیح مسئلہ کیا ہے ؟ اور مؤذن کی اجازت کے بغیر دوسرے کو اقامت کہنا کیسا ہے؟

فتاویٰ #1523

----بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ--- نابینا کی اقامت میں ادنی سی کراہت نہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ اذان دیتے تھے اور جب یہ اذان دیتے تھے تو یہی اقامت بھی کہتے ہوں گے؛ اس لیے کہ جو اذان کہے وہی اقامت بھی کہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت زیاد بن حارث صدائی نے اذان کہی دوسرے صاحب نے جب اقامت کہنا چاہی تو حضور نے منع فرمادیا۔ مشکاۃ شریف میں ہے: عن زیاد بن الحارث الصُدائي قال: أمرني رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- أن أؤذن في صلاۃ الفجر فأذنت فأراد بلال أن یقیم فقال رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم-: إن أخا صُداءٍ قد أذن ومن أذن فہو یقیم۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: أقام غیر من أذَّن بغیبتہ أي المؤذن لا یکرہ مطلقا وإن بحضورہ کرہ إن لحقہ وحشۃ۔ مؤذن کی عدم موجودگی میں کوئی دوسرا اقامت کہے تو مکروہ نہیں اور اگر مؤذن کی موجود گی میں دوسرا اقامت کہے اور مؤذن کو اس سے تکدر ہو تو مکروہ ہے ۔ واللہ تعالی اعلم حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ نابینا تھے۔ قرآن کریم میں سورہ ’’عبس‘‘ انھیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ فرمایا گیا: عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤىۙ۰۰۱ اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰىؕ۰۰۲ ۔ اس لیے نابینا کی اذان میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ اس کے اقامت کہنے میں۔ اور جب نابینا نے اذان کہی ہے بلکہ وہی مستقل مؤذن بھی ہے تو بغیر اس کی اجازت کے دوسرے کو اقامت کہنا ممنوع ہے ۔واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved