شارح بخاری کا جواب بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: ہمارے دیار میں یہ رائج ہے کہ امام جب مصلّٰے پر بیٹھ جاتا ہے تو اقامت کہی جاتی ہے اس صورت خاص میں حکم یہ ہے کہ امام اور مقتدی دونوں بیٹھے رہیں جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ ‘‘،’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو کھڑے ہوں۔ یہ مسئلہ نیا نہیں امام محمد تلمیذ امام اعظم، محرر مذہب حنفیہ اپنی موطا میں لکھتے ہیں: ینبغی للقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح أن یقوموا للصلاۃ فیصفوا ویسووا الصفوف۔ قوم کو چاہیے کہ جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو نماز کے لیے کھڑے ہوں اور صف باندھیں اور صفوں کو سیدھی کریں۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: والقیام لإمام والمؤتم حین قیل حي علی الفلاح إن کان الإمام بقرب المحراب۔ اگر امام محراب کے قریب ہو تو امام ومقتدی دونوں اس وقت کھڑے ہوں جب ’’حي علی الفلاح‘‘ کہا جائے۔ اس کے تحت شامی میں ہے: کذا في الکنز ونور الإیضاح والإصلاح والظہیریۃ والبدائع وغیرہا والذي في الدرر متنا وشرحا عند الحيعلة الأولى يعني حيث يقال حي على الصلاة ا هـ وعزاه الشيخ إسماعيل في شرحه إلى عيون المذاهب والفيض والوقاية والنقاية والحاوي والمختار ا هـ قلت واعتمده في متن الملتقى وحكى الأول بـ قيل لكن نقل ابن الكمال تصحيح الأول ونص عبارته: قال في الذخيرة: يقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي على الفلاح عند علمائنا الثلاثة۔ ایسے ہی (یعنی جب ’’حي علی الفلاح‘‘ کہا جائے تو کھڑے ہوں) کنز ، نور الایضاح، اصلاح، ظہیریہ اور بدائع وغیرہ میں ہے۔ درر کی متن وشرح میں یہ ہے کہ جب ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہا جائے تو کھڑے ہوں۔ شیخ اسماعیل نے اپنی شرح عیون المذاہب میں بھی یہی کہا ہے۔ میں کہتا ہوں ملتقی کے متن میں اسی پر اعتماد کیا اور اول کو قیل سے بیان کیا۔ لیکن ابن کمال نے پہلے کی تصحیح نقل کی۔ ان کی عبارت یہ ہے: ذخیرہ میں فرمایا: ہمارے تینوں علما(امام اعظم، امام ابو یوسف، امام محمد) کے نزدیک یہ ہے کہ جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو امام اور قوم کھڑے ہوں۔ سر دست ۱۹؍ کتب فقہ کا حوالہ درج ہے ان سب میں یہ تصریح ہے کہ جب امام محراب کے قریب ہو تو اقامت کے وقت امام اور مقتدی دونوں بیٹھے رہیں جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو کھڑے ہوں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ابتداے اقامت کے وقت بیٹھے رہیں اختلاف ہے تو اس میں کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہنے کے وقت کھڑے ہوں، یا ’’حي علی الفلاح‘‘ کہنے کے وقت۔ مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے ان دونوں میں تطبیق یہ دی کہ اقامت کہنے والا جب ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہنے لگے تو کھڑے ہونا شروع کر دیں اور ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ کسی فقہ کی کتاب میں نہیں کہ شروع اقامت سے کھڑے ہوں۔ علما نے تو یہاں تک تصریح کی ہے کہ اقامت کے وقت کوئی مسجد کے اندر آئے تو وہ بھی بیٹھ جائے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہو۔ اسے بھی کھڑے ہو کر اقامت سننا مکروہ ہے۔ مضمرات پھر عالمگیری، پھر رد المحتار میں ہے: یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ ’’حي علی الفلاح‘‘ ۔ اسے کھڑا ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے۔ وہ بیٹھ جائے جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ پر پہنچے تو کھڑا ہو۔ اس جاہل زید پر حیرت ہے کہ جو حکم شرعی امام محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی کتاب سے لے کر شامی تک میں صراحۃً مذکور ہے اسے نیا مذہب کہہ رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ عوام میں ایک غلط رواج پڑ گیا۔ اس زید کے اکابر کو اتنا علم نہیں تھا کہ کتب فقہ کا مطالعہ کرتے اور یہ حکم شرعی معلوم کرتے۔ یا علم ہوا بھی لیکن ہمت نہ ہوئی کہ غلط رواج کے مقابلے میں حکم شرعی بیان کرتے۔ وہ بھی جاہلوں کی طرح عمل کرتے رہے۔ اب جب کہ علماے اہل سنت نے یہ حکم شرعی بیان فرمایا تو اس میں انھیں اپنے اکابر کی توہین نظر آئی جان بچانے کے لیے جاہلوں کی طرح کہنا شروع کر دیا کہ یہ نیا مسئلہ ہے۔ نہ خدا کا خوف اور نہ رسول سے حیا۔ باپ دادا کی غلط رسم پر اڑے رہنے کا چسکا۔ اللہ عز وجل حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ واللہ تعالی اعلم۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org