8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہمارے یہاں امام صاحب پنج وقتہ نمازوں کی اقامت کے درمیان آتے ہیں اور مصلیٰ پر بیٹھ جاتے ہیں پھر ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر اٹھتے ہیں ۔ اسی طرح جمعہ کے خطبہ کے بعد جب اقامت شروع ہوجاتی ہے تو وہ منبر سے اتر کر مصلیٰ پر بیٹھ جاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ کھڑے ہو کر تکبیر سننا مکروہ ہے۔مگر ایک عالم یہاں ہیں جو اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ امام کو اقامت شروع ہونے کے بعد نہیں بیٹھنا چاہیے وہ بھی فتاوی رضویہ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں ہے اگر وہ تکبیر ہونے میں چلا تو اسے بیٹھنے کی بھی حاجت نہیں مصلی پر جائے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ختم تکبیر پر تکبیر تحریمہ کہے یوں ہی بعد خطبہ اسے اختیار ہے۔ کہیں منقول نہیں کہ خطبہ فرما کر تکبیر ہونے تک جلوس فرماتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث یا فقہ کی کسی کتاب میں بھی یہ صراحت نہیں ہے کہ تکبیر کھڑے ہو کر سننا مکروہ ہے ۔فتاوی رضویہ کی دونوں عبارتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں اس کی وضاحت فرمائیں۔

فتاویٰ #1511

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: اگر آپ نے ان دونوں مولوی صاحبان کو مجبور کیا ہوتا کہ فتاوی رضویہ دکھاؤ تو آپ کو سوال کرنے کی حاجت ہی نہ ہوتی۔ آپ کے جواب کےلیے اتنا کافی ہے کہ آپ فتاوی رضویہ جلد دوم ص:۷۱، ۷۲، ۷۳، دیکھ لیں۔ مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ: کھڑے ہو کر تکبیر سننا مکروہ ہے یہاں تک کہ علما حکم فرماتے ہیں کہ جو شخص مسجد میں آیا اور تکبیر ہو رہی ہے وہ [اس کے تمام تک کھڑا نہ رہے بلکہ] بیٹھ جائے یہاں تک کہ مکبر ’’حي علی الفلاح‘‘ تک پہنچے اس وقت کھڑا ہو ـــــ تائید میں وقایہ، محیط، ہندیہ، جامع المضمرات ، عالمگیری اور رد المحتار کی عبارات ہیں ـــــ پھر فرمایا: یہ اس صورت میں ہے کہ امام بھی وقت تکبیر مسجد میں ہو۔ اور اگر وہ حاضر نہیں تو مؤذن جب تک اسے آتا نہ دیکھے تکبیر نہ کہے نہ اس وقت تک کوئی کھڑا ہو۔ لقولہ ﷺ: لا تقوموا حتی تروني۔ پھر جب امام آئے اور تکبیر شروع ہو اس وقت دو صورتیں ہیں۔ اگر امام صفوں کی طرف سے داخل مسجد ہو تو جس صف سے گزرتا جائے وہی صف کھڑی ہوتی جائے اور اگر سامنے سے آئے تو اسے دیکھتے ہی سب کھڑے ہو جائیں اور اگر خود امام ہی تکبیر کہے تو جب تک پوری تکبیر سے فارغ نہ ہولے مقتدی اصلاً نہ کھڑے ہوں۔بلکہ اگر اس نے تکبیر مسجد سے باہر کہی تو فراغ پر بھی نہ کھڑے ہوں جب وہ مسجد میں قدم رکھے اس وقت قیام کریں۔ اس کے بعد تائیدی عبارتیں ہیں۔ منقولہ بالا عبارت پر آپ غور کریں گے تو آپ کے سارے سوالات کے جوابات آپ کو مل جائیں گے، آپ کی آسانی کے لیے میں تجزیہ کیے دیتا ہوں اس مسئلہ کی متعدد صورتیں ہیں: اول: امام اور مصلی سب مسجد میں ہوں تو دونوں کو کھڑے ہو کر تکبیر سننا مکروہ ہے امام کو بھی اور مقتدیوں کو بھی۔ جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر پہنچے تو کھڑے ہونا شروع کریں اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر پہنچے تو سیدھے ہو جائیں۔ اس وقت امام اور مقتدی دونوں کو کھڑے ہو کر اقامت سننا مکروہ ہے جیسا کہ مضمرات ہندیہ رد المحتار میں ہے: یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ ’’حي علی الفلاح‘‘۔ فقہ کی تقریباً ہر کتاب میں اس کی تصریح ہے یہ حکم اس صورت میں ہے کہ تکبیر امام کے علاوہ کوئی اور کہے۔ دوم: امام مسجد کے باہر ہو تو مؤذن کو حکم یہ ہے کہ جب تک امام کو مسجد میں آتا ہوا نہ دیکھ لے اقامت نہ کہے اس وقت پورے مصلیوں کو بیٹھے رہنا چاہیے ۔ اب دو صورت ہے امام اگر صفوں کی جانب سے آرہا ہے تو امام کو دیکھتے ہی سب مصلیوں کو کھڑا ہو جانا چاہیے تکبیر جہاں تک ہوئی ہو ۔ سوم: امام مسجد کے باہر ہے اور صفوں کے پیچھے سے مسجد میں آرہا ہے تو جس صف کے پاس پہنچے وہ کھڑی ہو جائے۔ آگے والے بیٹھے رہیں جب ان کے پاس پہنچے تو وہ کھڑے ہو جائیں حتی کہ اگر مسجد بڑی ہو اور درمیان ہی میں تکبیر ختم ہو جائے جب بھی وہ لوگ بیٹھے رہیں جہاں تک امام نہ پہنچا ہو۔ چہارم: امام ومقتدی سب مسجد میں ہیں اور امام خود اقامت کہہ رہا ہے تو امام جب تک اقامت پوری نہ کر لے پوری قوم بیٹھی رہے۔ پنجم: امام مسجد کے باہر ہے اور باہر ہی سے اس نے تکبیر کہنا شروع کیا تو جب تک امام مسجد میں نہ داخل ہو پوری قوم بیٹھی رہے۔ کلہا مصرحۃ في الہندیۃ۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved