8 September, 2024


دارالاِفتاء


جمعہ میں خطبہ کی اذان اندرون مسجد دینا کیا خلاف سنت ہےاور بدعت سیئہ ہے ۔ خارج مسجد دینی اگر سنت ہے تو فقہاے کرام اور حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ عوام کو بتایا جائے کہ حقیقت کیا ہے ۔ ایسے تو معلوم ہے کہ یہ سنت ہے ویسے امام صاحب کے حلقہ میں بیٹھنے والے حضرات کو کامل یقین ہو گیا ۔ جب ہم نے دکھایا کہ یہ سنت ہے، پھر بھی مہر شدہ یہ بھی بتایا جائے کہ امام صاحب کسی وجہ سے مسجد سے باہر اذان دلوانا نہیں چاہتے خواہ اپنی سبکی کی وجہ سے یا عوام یا آپس میں انتشار ہونے کی وجہ کر جب کہ متولی میرے والد محترم خود راقم الحروف امام کے ساتھ روزانہ اٹھنے بیٹھنے والے بزرگ اور چند شیروان جاں نثاران اسلام کلی طور پر رضا مند کہ امام صاحب کو ایسا کرنا چاہیے جب کہ یہ سنت ہے، ہم سنی ہیں ڈر اور خوف وانتشار کس بات کا یہ خود مختار مسجد وقف شدہ ہے۔ جب متولی راضی ہم سبھی ہر پہلو سے تیار پھر خاموش کیوں؟ انھیں ایسا کرنا چاہیے، کچھ ہونے کا سوال نہیں نہ کبھی اس مسجد میں کسی کی دال گلی ہے نہ آج گل سکتی ہے باطل کا گزریہاں نہیں تو پھر خاموشی کیوں لیکن امام صاحب کبھی تو یہ کہہ گئے بہت دھیمے لہجہ میں کہ ہونی تو باہر ہی چاہیے پھر خاموش، کبھی کہہ گئے بات جب زیادہ بڑھائی گئی وہی پرانی بات آپسی انتشار کا سہارا لیا، کیا معنی رکھتا ہے۔ امام صاحب گھر چلے گئے ہیں چھٹیوں پر۔ بتایا جائے حق ہم پر واضح ہو جانے کے بعدکیا ہم اس کو نافذ نہ کریں اور شریعت کیا فتوی دیتی ہے ایسے امام پر کہ اسے مسئلہ حقیقی معلوم ہو مگر مصلحت پسندی کا خواہ مخواہ سہارلے ۔ یاد رہے میں نے کسی مسئلہ کو اٹھایا حق پسند حضرات نے ساتھ دیا ، اللہ انھیں دین ودنیا کی نعمتوں سے سرفراز کرے ۔ امام صاحب نے سلسلہ گفتگو مجھ سے منقطع کر دی ۔ اگر میری غلطی ہے تو بھری محفل میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے قطعی شرم کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوگی۔ یہ میرے اسلاف کا انمول کر دار رہاہے لیکن اگر میں اس مسئلہ پر غلط نہیں تو قیامت کی صبح تک نہ معافی مانگ سکتا ہوں نہ ہی خود گفتگو میں پہل کر سکتا ہوں۔ خود راقم الحروف نے حق پسندی کی خاطر اپنے حقیقی ماموں کو نہیں چھوڑا پھر دوسرے کے لیے بچیں۔ بہر کیف تفصیل کھول کر رکھ دوں ،فیصلہ فتوی شریعت مطہرہ کیا دیتی ہے، دے کر احسان فرمائیں۔

فتاویٰ #1499

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: عامہ کتب فقہ مثلاً فتاوی قاضی خاں، البحر الرائق، فتاوی عالمگیری، فتح القدیر، شرح ہدایہ وغیرہ میں تصریح ہے: لا یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ نظم امام زندویستی ، پھر قہستانی ،پھر طحطاوی علی المراقی میں ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد۔مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ اور کراہت سے عند الاطلاق وعدم قیام قرینہ خلاف،تحریمی مراد ہونا منصوص، اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب ناجائز وگناہ ۔ در مختار میں ہے: کل مکروہ حرام أي کالحرام في العقوبۃ بالنار۔ مکروہ تحریمی حرام کی طر ح ہے کہ اس کی سزا جہنم ہے۔ جس سے ثابت کہ مسجد کے اندر اذان دینی ناجائز وگناہ اور عذاب جہنم کے استحقاق کا موجب ہے یہ ارشادات عام ہیں اس میں نہ کسی اذان کا استثنا ہے اور نہ کسی کی تخصیص۔ اس لیے اپنے عموم کے لحاظ سے اذان خطبہ کو بھی شامل ۔ اس لیے دیگر اذانوں کی طرح اذان خطبہ بھی مسجد کے اندر کہنی ناجائز وگناہ ہے۔ اس کی دلیل ابو داؤد شریف کی یہ حدیث ہے جو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رضی اللہ تعالی عنہما ۔ یعنی حضور اقدس ﷺ جب جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی ۔ اور ایسا ہی حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں بھی ہوتا تھا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے ابتدائی ایام خلافت میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ انھوں نے پہلی اذان کا اضافہ فرمایا جو بازار میں مقام زوراء پر ہوتی تھی اور اذان خطبہ وہیں ہوتی تھی جہاں عہد رسالت سے ہوتی آئی تھی۔ اور کبھی کہیں منقول نہیں کہ یہ اذان مسجد کے اندر وہ بھی منبر کے متصل خطیب کے سر پر ہوئی اگر مسجد کے اندر اذان جائز ہوتی تو بیان جواز کے لیے ایک دو بار ہی سہی مسجد کے اندر دی گئی ہوتی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ مسجد کے باہر اذان دینے پر مواظبت اور ہمیشگی رہی، اور ایسی سنت جس پر مواظبت رہی ہو اس کا خلاف کرنا ضرور بدعت سیئہ ہے ۔ بنص حدیث ثابت ہو گیا کہ مسجد کے اندر اذان دینی بدعت سیئہ وناجائز وگناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک خصوصاً اس دور میں جب کہ نجدی کا تسلط ہو چکا ہے مسجد نبوی شریف یا مسجد حرام میں اذان خطبہ منبر کے قریب نہیں ہوتی مسجد حرام میں مطاف کے باہر ہوتی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسجد حرام عہد نبوی میں مطاف ہی تک تھی بعد میں اضافہ ہوا ۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ اگر مسجد کی تعمیر سے پہلے کوئی جگہ اذان کے لیے مقرر ہو تو وہاں اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس لیے کہ حضور اقدس ﷺ نے مطاف کے باہر خارج مسجد جو جگہ تھی وہاں اذان دلوائی تو بعد میں اضافہ کرنے والوں نے تبرکاً وہ جگہ اذان دینے کے لیے باقی رکھی اور وہیں اذان ہوتی رہی ہے۔ الغرض اذان جمعہ بھی حسب تصریحات فقہا وحسب نص حدیث مسجد کے باہر دلانا ہی سنت ہے۔ دیگر اذانوں کے لیے کوئی قید نہیں مسجد کے باہر جہاں مناسب ہو دلائیں مگر اس اذان کے لیے یہ ضروری ہے کہ مسجد کے باہر اس جگہ دی جائے جو خطیب کے سامنے ہو۔ اگر یہ اذان باہر دلانے میں کچھ بے پڑھے لکھے لوگوں کے شور وشغب کا اندیشہ ہو تو اس کی قطعاً پروا نہ کی جائے۔ مردہ سنت زندہ کرنے پر سو شہیدوں کے ثواب کا وعدہ ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: من أحیی سنۃ من سنتي قد أمیتت بعدي فإن لہ من الأجر مثل أجور من عمل بہا من غیر أن ینقص من أجورہم شیئا۔ یعنی جس نے میری کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی یعنی اس پر عمل کرنا لوگوں نے چھوڑ دیا تھا تو اسے ان سب کے برابر ثواب ملے گا جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے۔ نیز فرمایا: من تمسک بسنتي عند فساد أمتي فلہ أجر مأۃ شہید۔ جو میری کسی سنت پہ عمل کرے گا میری امت کے بگڑ نے کے بعد اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ امام کو سمجھایا جائے ، مان جائے فبہا، نہ مانے تو اس کی پروا نہ کی جائے۔ اذان باہر دلائی جائے۔ اللہ ورسول کی اطاعت میں کسی مخلوق کی رضا مندی یا ناراضگی کی کوئی پروا ہ نہ کی جائے۔ یہ سوال پہلے بھی آیا تھا، اس کا جواب ہم نے فورا ہی بھیج دیا تھا آپ کو نہیں ملا تو مجبوری ہے۔ مبارک پور میں بھی بحمدہ تعالی اذان خطبہ مسجد کے باہر ہی ہوتی ہے ۔ جس کا جی چاہے آکر دیکھ لے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved