بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: لا عطر بعد الفردوس، اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کے فتوی مبارکہ کے دیکھنے کے بعد جن لوگوں کو یہ مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا ان کے لیے سواے اس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ عز وجل ان کو ہدایت دے۔ دین کی بنیاد کتاب وسنت ہے جب حدیث میں یہ مذکور ہے کہ خطبہ کی اذان حضور اقدس ﷺ اور خلفاے راشدین کے زمانے میں مسجد کے باہر مسجد کے دروازے پر منبر کے سامنے ہوتی تھی تو مسلمان کو اسے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی اذان ہو مسجد میں دینا منع ہے، اس فتوی میں خلاصہ، خزانہ، خانیہ، ہندیہ، فتح القدیر وغیرہ کے حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ ’’یؤذن علی المئذنۃ أو خارج المسجد، ولا یؤذن في المسجد۔ اذان مئذنہ پر دی جائے یا مسجد کے باہر دی جائے ، مسجد میں نہ دی جائے۔ فقہاے کرام کے ارشادات کے بعد کوئی شبہہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ مسجد میں اذان دینا منع ہے اور مسجد کے باہر اذان دینا ہی سنت ہے۔ اذان کا مقصد مسجد سے باہر کے لوگوں کو یہ خبر کرنا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا، مسجد کے اندر اذان دینے سے یہ مقصد پورا نہ ہوگا، اس لیے مسجد کے اندر کوئی بھی اذان ہر گز ہرگز نہ دی جائے۔ سب اذانیں مسجد کے باہر دی جائیں حتی کہ اذان خطبہ بھی البتہ اذان خطبہ میں اس کا لحاظ رہے کہ مسجد کے باہر ایسی جگہ ہو جو منبر کے سامنے ہو ۔ حج کرنے والوں سے پوچھ لیں پنج گانہ اذانیں مسجد حرام کے میناروں پر دی جاتی ہیں اور خطبہ کی اذان مطاف کے کنارے ، زمانۂ اقدس ﷺ میں مطاف ہی تک مسجد کی حد تھی تقریباً یہی حال مسجد نبوی شریف میں ہے۔ پنج گانہ اذانیں میناروں پر ہوتی ہیں اور خطبہ کی اذان بالکل منبر کے متصل نہیں ہوتی بلکہ منبر سے کافی دوری پر ہوتی ہے غالبا زمانہ اقدس میں مسجد مبارک کی حد وہیں تک تھی۔ احادیث وکتب فقہ کی تصریح کے ساتھ ساتھ حرمین طیبین کا عمل جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے اس کے لیے کافی ثبوت ہے کہ کوئی بھی اذان مسجد کے اندر نہ دی جائے وہ بھی بالکل منبر کے متصل، بلکہ مسجد کے باہر دی جائے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org